شاہ صاحب اینڈ سنز
شاہ صاحب خوش نظر تھے
خوش ادا تھے
اور روزی کے اندھیرے راستوں پر
صبر کی ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر
اک للک اک طنطنے کے ساتھ سرگرم سفر تھے
اور جینے کے مرض میں مبتلا تھے
جو غذائیں دسترس میں تھیں
عجب بے نور تھیں
ان میں نموکاری نہ تھی
وہ جو موتی کی سی آب آنکھوں میں تھی
جاتی رہی
پتلیوں میں خون
کائی کی طرح جمنے لگا
رفتہ رفتہ
موتیابند ان کے دیدوں پر
زمرد کی طرح اترا
عجب پردا پڑا
سارے زمانے سے حجاب آنے لگا
مضطرب آنکھوں کے ڈھیلے
خشک پتھرائے ہوئے
اتنے بے مصرف کہ بس
اک سبزہ دروازے کے پیچھے
بند سیپی کی طرح سے
اور اندھیرے آئینہ دکھلائیں استنجا کریں
صرف دشمن روشنی کا انتظار زندگانی غزوۂ خندق ہوئی
اس قدر دیکھا کہ نا بینا ہوئے
اور جب رزاق نگاہوں میں
سیاہی کی سلائی پھر گئی
چھتنار آنکھوں سے
تجلی کی سنہری پتیاں گرنے لگیں
تو شاہ صاحب اور بے سایہ ہوئے
ان کی اندھی منتقم آنکھوں میں دنیا
ایک قاتل کی طرح سے جم گئی
جیسے مرتے سانپ کی آنکھوں میں
اپنے اجنبی دشمن کا عکس
یوں سراسیمہ ہوئے
یوں ذات کے سنسان صحراؤں میں افسردہ پھرے
جیسے جیتے جاگتے لوگوں کو دیکھا ہی نہ ہو
جو شبیہیں دھیان میں محفوظ تھیں
ان سے رشتہ ہی نہ ہو
جگمگاتی بے قرار آنکھیں
کسی سہمے ہوئے گھونگھے کے ہاتھوں کی طرح
دیکھتی تھیں سونگھتی تھیں لمس کرتی تھیں
وہی جاتی رہیں تو زندگی سے رابطہ جاتا رہا
ہمدمی کا سلسلہ جاتا رہا
وہ جو اک گہرا تعلق
اک امر سمبندہ سا
چاروں طرف بکھری ہوئی چیزوں سے تھا
ہنستے ہوئے روتے ہوئے لوگوں سے تھا
اس طرح ٹوٹا کہ جیسے شیر کی اک جست سے
زبیر کی ریڑھ کی ہڈی چیخ جاتی ہے
برسوں بے طرح بے کل رہے
ایک دن آنکھوں میں صحرا جل اٹھا
وہ خیال آیا کہ چہرہ جل اٹھا
اپنے بیٹوں کو کلیجے سے لگایا
جی بھرا تھا ابر کے مانند روئے
رہ چکے تو ایک مہلک آتشیں تیزاب کے
شعلۂ سفاک سے
ان کی فاقہ سنج آنکھوں کو جلایا
اور سجدے میں گرے
جیسے گہری نیند میں ہوں
جیسے اک سکتے میں ہوں
مدتوں سے ان بیاباں راستوں پر
چار اندھے دوستوں کا ایک کورس گونجتا ہے
اے سکھی شہر سخاوت میں گزار اوقات کر
اے نذر والے نذر خیرات کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.