شام
تو آ گئی شام
سرمئی وحشت و ہزیمت کے سائے سائے
میں درد ہا درد اک نئی نظم بن رہا ہوں
درخت آسیب زادگاں دیو پیکراں
چہچہے کراہیں
یہ پات نوحے پہ سینہ کوبی میں گم عزا دار
شاخچے برچھیوں کے پھل
غنچے زخم نا آشنائے مرہم
گھنے درختوں میں
زمزمہ ساز اپنی اپنی دھنوں کو ترتیب دے رہے ہیں
لہکتے پتوں کی تالیوں میں
حنائی ہاتھوں کے تھپتھپانے کا لمس ہے
شاخچوں کے پردوں سے منہ نکالے ہوئے یہ غنچے
کسی کو آواز دے رہے ہیں
نگار نکہت نے حجلۂ گل کا پردہ پردہ دیا ہے
وہ ہونٹ آواز دے رہے ہیں
یہ بعد کیا ہے؟
حیات و موت اور شادی و غم کے سلسلوں
میں یہ بعد کیا ہے
ظروف و احوال کے فسانے میں سب مظاہر
جدا جدا ہیں
میں اپنے ہونے میں سانحہ ہوں کہ
واقعہ ہوں؟
جو ایک منظر مجھے رلائے
وہی پرندے کی چونچ پر کھل کے چہچہائے
پھر آ گئی شام
سرمئی وحشت و ہزیمت کے سائے سائے
- کتاب : Sitarah Saaz (Pg. 54)
- Author : Akhtar Usman
- مطبع : Ahbaab Publications (2013)
- اشاعت : 2013
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.