شکوہ
کیوں نہ اپنی ہستیٔ ناشاد کا شکوا کروں
رنج و غم گھیرے ہوں جب مجھ کو تو میں بھی کیا کروں
میری قسمت میں لکھی ہے خار صحرا کی خلش
کس توقع پر تمنائے گل رعنا کروں
صبر کا پھل لوگ کہتے ہیں ملے گا ایک دن
آہ کب تک انتظار وعدۂ فردا کروں
کون کرتا ہے مداوا خاطر ناشاد کا
اپنی محرومی کا کس کے سامنے چرچا کروں
دل کے داغوں کو سمجھ لوں کس طرح گلہائے تر
غم سے کیسے ساز و سامان خوشی پیدا کروں
گردش دوراں سے کہہ دو اس پہ میں راضی نہیں
چند ساعت مسکرا کر عمر بھر رویا کروں
میں ازل سے درمیان رنج و راحت ہوں اسیر
غم کو اپناؤں کہ راحت کو کروں تو کیا کروں
ایک مدت سے پریشاں خاطر ناشاد ہے
سوچتا ہوں پارہ ہائے دل کو پھر یکجا کروں
ایک حالت پر کبھی رہتا نہیں مجھ کو قرار
ہر سکوں کے بعد یہ ہے آرزو تڑپا کروں
وہ سکون مستقل ہے یہ ہے پیہم اضطراب
زندگانی کا گلہ یا موت کا شکوا کروں
مأخذ:
(Pg. 105)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.