سنہری دروازے کے باہر
لرزتے بدن
رنگ کہرے میں لپٹے ہوئے
ادھ مری روشنی کا کفن اوڑھ کر
موت کی سر زمیں میں اجالوں پہ قربان ہونے سے پہلے
بہت دیر تک
اپنے احساس کی آنچ سہتے رہے
شام
نیم تاریک راہوں پہ ماتھا رگڑتی رہی
کانپتی تھرتھراتی شب غم کے سانچے میں ڈھلنے سے پہلے
بہت دیر تک
سرد فانوس کے پاس ٹھہری رہی
چاند
آکاش کے گہرے نیلے سمندر میں تاروں کی اندر سبھا سے
بہت دیر تک
موت کی سرزمیں پر اجالوں کی گل پوشیاں کر رہا تھا
لحد تا لحد کوئی سایہ نہ خاکہ
قدم تا قدم منزلوں کے نشاں گم
مکینوں سے خالی مکانوں کے در
تختیاں رہنے والوں کے ناموں کی لے کر
بہت دیر تک منتظر تھے مگر
کوئی دستک نہ آہٹ
ادھر
بے زباں شہر کی تیرگی میں
لرزتے بدن
کیف و کم کے بدلتے ہوئے زاویوں میں
الجھتے چھلکتے بکھرتے سمٹتے رہے
اور کہرے میں لپٹے ہوئے
شاخ در شاخ روشنی سے گزر کر
صلیبوں کے سائے میں دم لے رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.