Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تابوت نگر

صدیق عالم

تابوت نگر

صدیق عالم

MORE BYصدیق عالم

    مجھے پتہ بھی نہ چلا

    اور میں تابوت نگر آ گیا

    یہ اتنا مبہم بھی نہ تھا

    تابوت نگر

    جس کی گلیوں میں

    انسان اپنی پرچھائیوں سے کٹ جاتے ہیں

    تابوت نگر کے چار چوب دروازے اور دریچے

    انسانوں کے منتظر ہیں

    جو اپنے گھروں میں دفن ہیں

    جب یخ بستہ ہوائیں ٹکراتی ہیں ان گھروں سے

    تو یہ لوگ اپنی بدبو دار سانس

    کسی غبارے کی طرح اپنے اندر بھر لیتے ہیں

    جب لوگ اپنی خاموشی سے اکتا جاتے ہیں

    شور کی تلاش میں

    دیواروں کو توڑ کر

    باہر نکل آتے ہیں

    اپنے عظیم مقصد کی آڑ میں

    ایک دوسرے کو دار سے لٹکاتے ہیں

    مجھے پتہ بھی نہ چلا

    اور میں تابوت نگر آ گیا

    پچھلی رات

    کیونکہ ہر انسان کی ایک پچھلی رات ہوتی ہے

    جب بلے روتے ہیں

    جب خانہ زاد مکڑی جالا بنتی ہے

    جس کے مرکز میں چمک اٹھتا ہے چاند

    جب انسانوں کے اندر کے جھاڑ جھنکار

    ان کے کانوں نتھنوں سے

    ان کے دہن اور مقعد سے

    باہر نکل آتے ہیں

    جب زہریلے ککرمتے اگتے ہیں

    ان کی شریانوں سے

    جنہیں اپنی ضرورت کے مطابق

    وہ اپنے چوگاتھ پر سجاتے ہیں

    خوب صورت رنگوں سے رنگتے ہیں

    خوب صورت لفظوں سے ڈھک کر

    دنیا کے سامنے لاتے ہیں

    پچھلی رات

    کسی نے کہا تھا

    اب اس رات کا ماتم بیکار ہے

    وقت آ چکا ہے کہ لوگ

    اپنے تابوت سے اٹھائے جائیں

    دھو دھلا کر اچھے کپڑے پہنائے جائیں

    نئے سرے سے دفنائے جائیں

    اس کی ضرورت آ چکی ہے

    کہ تاریخ سے لوگوں کے ناجائز قبضے ہٹائے جائیں

    تو میں نے نفی میں سر ہلایا

    یہ ہمارے خون میں ہے

    یہ جرثومے کبھی نہیں مرتے

    انہیں بار بار جی اٹھنے کی لت ہے

    انہیں بار بار دفنانا ضروری ہو جاتا ہے

    اور میں میز سے اٹھنے والا آخری شخص نہ تھا

    جسے اپنے تابوت کے اندر جانا تھا

    نہ یہ آخری بار تھا کہ مجھے تابوت سے باہر آنا تھا

    نہ یہ آخری بار تھا کہ نئے سرے سے

    ایک نئے ماتم کے ساتھ ایک نئے کتبے کے ساتھ

    مجھے ایک نئے تابوت میں اپنا گھر بسانا تھا

    اور مجھے پتہ بھی نہ چلا

    میں تابوت نگر آ گیا

    مأخذ:

    تسطیر (Pg. 206)

      • ناشر: بک کارنر، پاکستان
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے