تنہائی
بارش کے موسم میں
کلیوں کے لب
کھل جاتے ہیں
پیڑوں کے پتے دھل جاتے ہیں
کتنی آنکھیں
ایسی رت کا سواگت کرنے
دروازوں پر آ جاتی ہیں
کتنے ہاتھوں کی دھندلی دھندلی
ریکھائیں
چمکیلی ہو جاتی ہیں
کتنے ہی سوکھے ہونٹوں کی
خشک دعائیں
گیلی ہو جاتی ہیں
کتنے ہی جسموں کی تہذیبیں
ننگے سر
باہر آ جاتی ہیں
کتنی ہی سونی راتوں کی مانگوں میں
تاروں کی
باراتیں سجنے لگتی ہیں
کتنے آنگن
شہنائی سے گونج اٹھتے ہیں
لیکن تم نے اپنے گھر کے
دروازوں پر
گہرے گہرے موٹے موٹے
کالے پردے
ڈال رکھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.