Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طوائف

MORE BYاظہار ملیح آبادی

    اجنبی ڈال نہ یوں مجھ پر حقارت کی نظر

    میں تری چاہنے والی ہوں ذرا دیر ٹھہر

    شوق نظارہ اگر ہے تو ہر اک رہ سے گزر

    آ تجھے اپنی نگاہوں سے پلا دوں ساغر

    چند سکوں پہ ہوا کرتا ہے ہر شب کو نثار

    میرے سینے کا گداز اور جوانی کی بہار

    جتنا ناپاک ہے تن اتنا مرا من تو نہیں

    کیوں ٹھٹھکتا ہے جھجکتا ہے میں ناگن تو نہیں

    مانگ لیتی ہوں زباں سے کوئی رہزن تو نہیں

    تیرے کنبے ہی سے میں ہوں تری دشمن تو نہیں

    یہ وہ در ہے جہاں محتاج و غنی آتے ہیں

    نام کس کس کا میں اب لوں کہ سبھی آتے ہیں

    وہ جواں جن کی رگوں میں ہے بغاوت رقصاں

    جن کے چہروں پہ ہے ناکامئ الفت کا دھواں

    جن کے ہر لفظ میں نشتر ہے نگاہوں میں سناں

    کارخانوں میں گھٹے جاتے ہیں جن کے ارماں

    زندگی بھر جو مشینوں کو لہو دیتے ہیں

    آ کے کچھ دیر مری بزم میں ہنس لیتے ہیں

    کتنے رشیوں کی کٹی میں مرے کاشانے ہیں

    کتنے درویشوں کے لب پر مرے افسانے ہیں

    میری ہر سانس کے آغوش میں بت خانے ہیں

    شیخ صاحب بھی مرے حسن کے دیوانے ہیں

    جو مری بزم میں ہے وہ مرا شیدائی ہے

    کوئی ہندو ہے نہ مسلم ہے نہ عیسائی ہے

    کال اور قحط کی سیجوں کو سجاتی نہیں میں

    خون مزدور کا گلیوں میں بہاتی نہیں میں

    گولیاں اہل محبت پہ چلاتی نہیں میں

    پنچ سالہ کوئی سکیم بناتی نہیں میں

    اہل محفل کو رلانا نہیں آتا مجھ کو

    ٹیکس پر ٹیکس لگانا نہیں آتا مجھ کو

    میں ہوں اک جھوٹ کا بازار یہ مانا میں نے

    میرے غمزے بھی ہیں تلوار یہ مانا میں نے

    میرے پھولوں میں ہیں سو خار یہ مانا میں نے

    میں ہوں دولت کی طلب گار یہ مانا میں نے

    سب جتن ہیں یہ مگر اک دل پر غم کے لیے

    جمع کرتی نہیں دولت کو میں ایٹم کے لیے

    میرا منشا نہیں اقوام زبوں کی تسخیر

    میرا مقصد نہیں پہناؤں خرد کو زنجیر

    میرا ایماں نہیں الفت ہو رہین تعزیر

    میرا ارماں نہیں مر جائے غریبوں کا ضمیر

    میں نے غلے کو گوداموں میں چھپایا ہے کبھی

    میں نے ڈالر کے لیے ہاتھ بڑھایا ہے کبھی

    مجھ کو سرمائے کے شعلے نے جلا ڈالا ہے

    میری عصمت کے چراغوں کو بجھا ڈالا ہے

    میرے سینے سے شرافت کو مٹا ڈالا ہے

    مجھ کو اک پیکر تفریح بنا ڈالا ہے

    مجھ میں مریم کا تقدس تھا تو سیتا کا وقار

    کر دیا زر نے مجھے رونق حسن بازار

    خیر تو ان مری باتوں پہ کوئی دھیان نہ کر

    ماسوا میرے کسی کا کبھی ارمان نہ کر

    اپنا دل اور کسی راہ میں قربان نہ کر

    آ بھی جا بام پہ اب دیر میری جان نہ کر

    میرے سینے میں جو شعلہ ہے نہ سو جائے کہیں

    اجنبی ڈر ہے مجھے صبح نہ ہو جائے کہیں

    مأخذ:

    Naye Tarane (Pg. 142 (e) 142)

    • مصنف: اظہار ملیح آبادی
      • اشاعت: 1953
      • ناشر: کاکل کتاب گھر، ممبئی
      • سن اشاعت: 1953

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے