تمہارا اجنبی
تمہارے شہر میں وہ پا برہنہ اجنبی
طلوع آفتاب کے لئے
شب گراں کے راستوں سے
خامشی کے دشت سے گزر گیا
ندائے منتظر کی چشم خود ادا میں
صبح دم اتر گیا
دریچے جب کھلے
تمہارا شہر روشنی میں موجزن تھا دور تک
طلوع آفتاب
رنگ و بو کا کارواں لیے ہوئے
سفینۂ ادائے نور کامراں لئے ہوئے
حسین آنچلوں کے لہلہاتے بادباں لئے ہوئے
ہر ایک رہ گزر پہ ایسے چھا گیا
مسرتوں محبتوں حسین مسکراہٹوں کی جنتیں لٹا گیا
طلوع آفتاب برگ سرخ تھا
وہ اجنبی تمہارے شہر میں وہ بے زبان اجنبی
مگر فشار تیرگی کی سرد خاک زرد دھند کا
مہیب مرگ آشنا سا ذائقہ
نہ جانے کیوں لب و زباں پہ جسم و جاں پہ جھیلتا رہا
نہ جانے کیوں وہ مرگ و زندگی کے زیر و بم سے کھیلتا رہا
تمہارا اجنبی تمہارے شہر میں
اگرچہ روبرو تھا منظر طلوع آفتاب کے
تمہارا روئے زر نگار
خوب تر حسین تر تھا گرچہ منظر طلوع آفتاب سے
مگر تمہارا روئے زرنگار
روزن دیار دید کی حدوں سے آج ماورا رہا
تمہارا اجنبی تمہارے شہر میں
تمہارا کون تھا کہ جسم و جاں کی تیرگی کے جنگلوں میں کھو گیا
حسین چمچاتی دھوپ میں
اداس ساحلوں فسردہ وادیوں میں سو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.