میں روز اول کی اک کہانی
تمہیں سناؤں تو رو پڑو گے
میں ایک مشت غبار تھا جب
جسے سمیٹا گیا تھا شاید
اک ایسے صحرائی سر زمیں سے
جہاں پہ وحشت اتر رہی تھی
اداسیوں کا عجب سماں تھا
اس ایک مشت غبار سے جب فقیر تجسیم ہو رہا تھا
اور آب و گل کے اسی تناسب میں ایک شے تھی جو جذب ہوتی چلی گئی تھی
میں اک جہان خراب کے بیچ بن رہا تھا
وہاں کا منظر بھی دیکھ لیجے
بغل میں وحشت کھڑی ہوئی تھی
وہیں جنوں کا تھا رقص جاری
اور ایسی حالت میں ایک شے جو بدن کے اندر اتر چکی تھی
نہ جانے کیسا عجب تعلق تھا اس سے میرا
کہ چاہ کے بھی میں اس سے دامن چھڑا نہ پایا
مجھ ایسے صحرا نورد لوگوں کے مسئلوں کو وہ جانتی تھی
اسے پتہ تھا کہ ہجرتوں میں انہیں دلاسے کی آس ہوگی بچھڑ گئے تو کسی سہارے کی واقعی میں تلاش ہوگی
جو دکھ زمانے کے کچی عمروں سے جھیلتے ہیں
بتاؤ ایسے میں کون ہوگا جو ان کو شانہ عطا کرے گا
وہ کون ہوگا جو ان کے جذبوں کی کشتیوں کو بس ایک تنکا دکھا کے پھر سے بہاؤ دے گا
وہ کشتیاں بھی کچھ اس طرح کی جو موج دریا میں ڈوبنے کی اخیر حد کو پہنچ چکی ہوں
انہیں مسائل کو سامنے رکھ کے روز اول وہ آب و گل کے اسی تناسب میں جذب ہوتی چلی گئی تھی
اسی اداسی کی ہی رفاقت مجھ ایسے آشفتہ سر کو زندہ کئے ہوئے ہے
جو روز اول سے اس بدن کی سیاہیوں میں گھری ہوئی ہے
میں ہنس پڑوں تو وہ مجھ میں جھلکے
جو رونے لگ جاؤں مجھ سے لپٹے
انہیں مکمل اداسیوں کی عجیب رنگت بتا رہی ہے
کہ میرے آگے کی آنے والی تمام نسلیں اداس ہوں گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.