افروز عالم
غزل 22
نظم 28
اشعار 12
تاریخ بتائے گی وہ قطرہ ہے کہ دریا
آنسو ہے ابھی وقت کے قدموں میں پڑا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
زمانہ تجھ کو حریف کہہ لے اسے یہ حق ہے
مری نظر میں تو دیوتا ہے یہی بہت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ستاتی ہے تمہاری یاد جب مجھ کو شب ہجراں
مجھے خود اپنی ہستی اجنبی معلوم ہوتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہر خواب شکستہ ہے تعمیر نشیمن کا
ہر صبح کے ماتھے پر بازار کی گرمی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے