احمد صغیر کے اشعار
خدایا اپنے کن کی لاج رکھ لے
ترا شہکار ضائع ہو رہا ہے
مجھے چراغ بجھانا پڑا تھا مجبوراً
تمہارا سایا نہیں جا رہا تھا کیا کرتا
قم بازن العشق سے دل زندہ کرے گا
ی مجھ سے محبت کے مسیحا نے کہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جواب آئے نہ آئے شکن تو آئے گی
سوال پوچھ ہی لینا اگرچہ ڈرتے ہوئے
کیسی عجیب ہے یہ محبت کی زندگی
دو پتھروں میں جان پڑی اور مر گئے
اشک روکو نہیں بہہ جانے دو ورنہ اک دن
یہ نمی جسم کی دیوار کو کھا جائے گی
یہ ضروری تو نہیں تھا کہ بچھڑ ہی جاتے
ہم ترے ساتھ ترا ہجر منا سکتے تھے
جسے بھلا دئے جانے کے دکھ نے مار دیا
پتہ چلا ہے اسے یاد کر رہا تھا کوئی
دسترس میں نہ رہے لفظ گری بہتر ہے
ہم اگر بول پڑیں گے تو بہت بولیں گے
حکم سلطان کی تعمیل تمہارے لیے ہے
میں نہیں جا رہا چاہو تو یہ سر لے جاؤ
اے رب زلیخا و خدائے ابو یوسف
اک حسن کے مارے ہوئے دو ہجر زدہ دیکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غرور خوف انا ہاتھ پاؤں کچھ ٹوٹے
مگر جو ٹوٹ رہا ہے وہ اعتبار ہی کیوں
اجنبیت کی جھلک دیکھی گئی لہجے میں
بات ڈرنے کی ہے اس بات پہ ڈر جائیے نا
چیختے چیختے چپ ہو گئیں ننھی روحیں
ہر مقدس در و دیوار پہ لعنت بھیجو
کھرچ کھرچ کے تجھے ذہن سے مٹاؤں گا
میں اپنے ہوش کے ناخن ذرا بڑھا تو لوں
برف پگھلے تو پھر سفید بہے
آرزو تھی چناب والوں کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
فقط ستارے نہیں روشنی کا بوجھ بھی تھا
زمین کانپ اٹھی آسماں اٹھاتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کے مرہم سے مکر جانے کا غصہ تھا مجھے
ورنہ یہ زخم جگر بار دگر کچھ نہیں تھا
اے بھٹکنے کے ارادے سے نکلنے والو
ہم سے کچھ دشت نوردی کا ہنر لے جاؤ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سویا نہیں میں برسوں تلک جس کے خوف سے
وہ خواب اب بھی چشم بدر ہو نہیں رہا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم متفق نہیں ہیں مجبور ہیں سو طے ہے
ساحل ترا مقدر ٹھہرا بھنور ہمارا
زرد چہروں سے اداسی کے بچھڑنے کا سبب
لوگ پوچھیں گے تو کہہ دینا کہ دکھ ہار گیا
اس بوڑھی پجارن کے خد و خال سے پوچھو
بت اس کی تمنا کے حسیں تھے کہ نہیں تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تھا مست باندھنے میں وہ تمہید زخم دل
سینہ کے اک شگاف پہ انگلی دھرے ہوئے
زرد موسم نے درختوں کی زباں سل دی تھی
پھر کوئی پھول ہنسا اور خزاں ہار گئی
وہ جانتا ہے مگر بے وفا نہیں کہتا
اب اس کی مصلحتیں کیا بتائیں دکھ کی ہیں
خواب تو چھوڑ چکے دیکھنا برسوں پہلے
دیکھ یہ کیا ہے جو تعبیر ہوا چاہتا ہے
یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کوئی جانے تو
جرم آمیز تخیل کے ادھر کچھ نہیں تھا
جانے دو ایک روز یہیں پھر کے آئے گا
جو کچھ ہے اس پہ رخت سفر جانتا ہوں میں