Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Sageer's Photo'

احمد صغیر

1990 | لکھنؤ, انڈیا

ہمعصرنوجوان شاعروں میں شامل، غزل میں خوبصورت انداز میں معاصر مسائل کا بیان، روایت سے فیض یاب

ہمعصرنوجوان شاعروں میں شامل، غزل میں خوبصورت انداز میں معاصر مسائل کا بیان، روایت سے فیض یاب

احمد صغیر کے اشعار

277
Favorite

باعتبار

خدایا اپنے کن کی لاج رکھ لے

ترا شہکار ضائع ہو رہا ہے

مجھے چراغ بجھانا پڑا تھا مجبوراً

تمہارا سایا نہیں جا رہا تھا کیا کرتا

قم بازن العشق سے دل زندہ کرے گا

ی مجھ سے محبت کے مسیحا نے کہا ہے

جواب آئے نہ آئے شکن تو آئے گی

سوال پوچھ ہی لینا اگرچہ ڈرتے ہوئے

کیسی عجیب ہے یہ محبت کی زندگی

دو پتھروں میں جان پڑی اور مر گئے

اشک روکو نہیں بہہ جانے دو ورنہ اک دن

یہ نمی جسم کی دیوار کو کھا جائے گی

یہ ضروری تو نہیں تھا کہ بچھڑ ہی جاتے

ہم ترے ساتھ ترا ہجر منا سکتے تھے

جسے بھلا دئے جانے کے دکھ نے مار دیا

پتہ چلا ہے اسے یاد کر رہا تھا کوئی

دسترس میں نہ رہے لفظ گری بہتر ہے

ہم اگر بول پڑیں گے تو بہت بولیں گے

حکم سلطان کی تعمیل تمہارے لیے ہے

میں نہیں جا رہا چاہو تو یہ سر لے جاؤ

اے رب زلیخا و خدائے ابو یوسف

اک حسن کے مارے ہوئے دو ہجر زدہ دیکھ

غرور خوف انا ہاتھ پاؤں کچھ ٹوٹے

مگر جو ٹوٹ رہا ہے وہ اعتبار ہی کیوں

اجنبیت کی جھلک دیکھی گئی لہجے میں

بات ڈرنے کی ہے اس بات پہ ڈر جائیے نا

چیختے چیختے چپ ہو گئیں ننھی روحیں

ہر مقدس در و دیوار پہ لعنت بھیجو

کھرچ کھرچ کے تجھے ذہن سے مٹاؤں گا

میں اپنے ہوش کے ناخن ذرا بڑھا تو لوں

برف پگھلے تو پھر سفید بہے

آرزو تھی چناب والوں کی

فقط ستارے نہیں روشنی کا بوجھ بھی تھا

زمین کانپ اٹھی آسماں اٹھاتے ہوئے

اس کے مرہم سے مکر جانے کا غصہ تھا مجھے

ورنہ یہ زخم جگر بار دگر کچھ نہیں تھا

اے بھٹکنے کے ارادے سے نکلنے والو

ہم سے کچھ دشت نوردی کا ہنر لے جاؤ

سویا نہیں میں برسوں تلک جس کے خوف سے

وہ خواب اب بھی چشم بدر ہو نہیں رہا

ہم متفق نہیں ہیں مجبور ہیں سو طے ہے

ساحل ترا مقدر ٹھہرا بھنور ہمارا

مرے تعویذ آ میرے گلے پڑ

مرے آسیب باہر آ رہے ہیں

زرد چہروں سے اداسی کے بچھڑنے کا سبب

لوگ پوچھیں گے تو کہہ دینا کہ دکھ ہار گیا

اس بوڑھی پجارن کے خد و خال سے پوچھو

بت اس کی تمنا کے حسیں تھے کہ نہیں تھے

تھا مست باندھنے میں وہ تمہید زخم دل

سینہ کے اک شگاف پہ انگلی دھرے ہوئے

زرد موسم نے درختوں کی زباں سل دی تھی

پھر کوئی پھول ہنسا اور خزاں ہار گئی

وہ جانتا ہے مگر بے وفا نہیں کہتا

اب اس کی مصلحتیں کیا بتائیں دکھ کی ہیں

خواب تو چھوڑ چکے دیکھنا برسوں پہلے

دیکھ یہ کیا ہے جو تعبیر ہوا چاہتا ہے

یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کوئی جانے تو

جرم آمیز تخیل کے ادھر کچھ نہیں تھا

جانے دو ایک روز یہیں پھر کے آئے گا

جو کچھ ہے اس پہ رخت سفر جانتا ہوں میں

مثل سراب ہی سہی میرے بنے رہو

صحرا میں تشنگی کا سہارا فریب ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے