Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Waqas Mahrwi's Photo'

احمد وقاص مہروی

1990 | گوجر خان, پاکستان

احمد وقاص مہروی کے اشعار

33
Favorite

باعتبار

مستقبل کے خوف سے سہما رہتا ہوں

میں نے بوڑھے پیڑ کی آنکھیں دیکھی ہیں

بن رہی ہیں جال پھر سے مکڑیاں

ایک آوارہ سی مکھی کے لیے

میں نے کرنی ہے ستاروں سے کوئی راز کی بات

ابھی کچھ اور مرے قد کو بڑھایا جائے

مجھے پارسائی کا دعویٰ نہیں ہے

فرشتہ نہیں میں نرا آدمی ہوں

قسمت کا مری حال بتاؤگے مجھے کیا

مزدور کے ہاتھوں پہ لکیریں نہیں ہوتیں

حیات و موت کا یہ فلسفہ بجا لیکن

درون خاک مرا دل ضرور دھڑکے گا

ایک مکمل واحد ہستی میری مالک پھر کاہے کو

کرچی کرچی ریزہ ریزہ پارہ پارہ میں آوارہ

ایسے میں کس کا بھروسہ کیجیے

جب کسی پیاسے کو پانی مار دے

وہ جو انا کی قید میں اب تک ہے مطمئن

اب اس کے لوٹنے کا گماں کس لیے کریں

آہ کرتا ہے تو زنجیر بھی رو پڑتی ہے

تو نے وحشی کی اذیت کو کہاں دیکھا ہے

مرے ہر طرف بس خدا ہی خدا ہیں

خداؤں میں سہما ہوا آدمی ہوں

جس کی فطرت میں ہو بس ایک خدا کی پوجا

ایسی مٹی سے کوئی بت نہ بنایا جائے

کسی نے رنج دیا اور کسی نے گالی دی

بقدر ظرف نوازا ہے دوستوں نے مجھے

شب سیاہ کے ماتھے پہ لکھ رہا ہوں میں

زوال آدم خاکی کی داستان ہنوز

حیات و موت کا یہ فلسفہ بجا لیکن

درون خاک مرا دل ضرور دھڑکے گا

کوئی صدی مری منتظر ہے کسی صدی سے گزر رہا ہوں

میں ایک منظر میں جی اٹھوں گا میں ایک منظر میں مر رہا ہوں

کائناتوں کا الاؤ سرد ہوتا جا رہا ہے

زندگی کا سبز پتا زرد ہوتا جا رہا ہے

سخت مشقت والے دن بھی کاٹے ہیں

خون رلانے والی راتیں دیکھی ہیں

میں مانتا ہوں برا بیت بیت جائے گا

مگر وہ تیر جو تیری کماں سے آئے گا

ہجر دے کے بھی بے قراری ہے

اور سلگائیے اس آتش کو

اسی کے نور سے روشن ہیں کہکشائیں بھی

وہ ایک اسم جو میری زباں سے جاری ہے

جانب مقتل گھسیٹا جا رہا ہے

مجھ پہ یہ الزام ہے میں آدمی ہوں

رات کو تارے گنتا ہوں اور روتا ہوں

کہنے کو تو میں بھی چھت پہ سوتا ہوں

آ جائے کوئی رنج مٹانے کو کہیں سے

افلاک سے اترے یا نکل آئے زمیں سے

آئینۂ حیات میں برسوں سے اے وقاص

ٹھہرا ہوا ہے عکس ترے خد و خال کا

جانب راہ عدم جو بھی سدھارے جائیں

عین ممکن ہے کسی روز پکارے جائیں

اس حرف با صفا نے تو سولی چڑھا دیا

وہ ایک حرف حق جو مرے حافظے میں تھا

وقت کے دائرے میں رہتے ہوئے

تھک چکا ہوں حیات سہتے ہوئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے