Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Waqas Mahrwi's Photo'

احمد وقاص مہروی

1990 | گوجر خان, پاکستان

احمد وقاص مہروی کے اشعار

67
Favorite

باعتبار

مجھے پارسائی کا دعویٰ نہیں ہے

فرشتہ نہیں میں نرا آدمی ہوں

قسمت کا مری حال بتاؤگے مجھے کیا

مزدور کے ہاتھوں پہ لکیریں نہیں ہوتیں

وہ جو انا کی قید میں اب تک ہے مطمئن

اب اس کے لوٹنے کا گماں کس لیے کریں

بن رہی ہیں جال پھر سے مکڑیاں

ایک آوارہ سی مکھی کے لیے

مستقبل کے خوف سے سہما رہتا ہوں

میں نے بوڑھے پیڑ کی آنکھیں دیکھی ہیں

میں نے کرنی ہے ستاروں سے کوئی راز کی بات

ابھی کچھ اور مرے قد کو بڑھایا جائے

حیات و موت کا یہ فلسفہ بجا لیکن

درون خاک مرا دل ضرور دھڑکے گا

کسی نے رنج دیا اور کسی نے گالی دی

بقدر ظرف نوازا ہے دوستوں نے مجھے

حیات و موت کا یہ فلسفہ بجا لیکن

درون خاک مرا دل ضرور دھڑکے گا

رات کو تارے گنتا ہوں اور روتا ہوں

کہنے کو تو میں بھی چھت پہ سوتا ہوں

کوئی صدی مری منتظر ہے کسی صدی سے گزر رہا ہوں

میں ایک منظر میں جی اٹھوں گا میں ایک منظر میں مر رہا ہوں

جس کی فطرت میں ہو بس ایک خدا کی پوجا

ایسی مٹی سے کوئی بت نہ بنایا جائے

ایک مکمل واحد ہستی میری مالک پھر کاہے کو

کرچی کرچی ریزہ ریزہ پارہ پارہ میں آوارہ

ایسے میں کس کا بھروسہ کیجیے

جب کسی پیاسے کو پانی مار دے

مرے ہر طرف بس خدا ہی خدا ہیں

خداؤں میں سہما ہوا آدمی ہوں

ہجر دے کے بھی بے قراری ہے

اور سلگائیے اس آتش کو

آئینۂ حیات میں برسوں سے اے وقاص

ٹھہرا ہوا ہے عکس ترے خد و خال کا

آہ کرتا ہے تو زنجیر بھی رو پڑتی ہے

تو نے وحشی کی اذیت کو کہاں دیکھا ہے

شب سیاہ کے ماتھے پہ لکھ رہا ہوں میں

زوال آدم خاکی کی داستان ہنوز

میں مانتا ہوں برا بیت بیت جائے گا

مگر وہ تیر جو تیری کماں سے آئے گا

سخت مشقت والے دن بھی کاٹے ہیں

خون رلانے والی راتیں دیکھی ہیں

آ جائے کوئی رنج مٹانے کو کہیں سے

افلاک سے اترے یا نکل آئے زمیں سے

کائناتوں کا الاؤ سرد ہوتا جا رہا ہے

زندگی کا سبز پتا زرد ہوتا جا رہا ہے

جانب راہ عدم جو بھی سدھارے جائیں

عین ممکن ہے کسی روز پکارے جائیں

وقت کے دائرے میں رہتے ہوئے

تھک چکا ہوں حیات سہتے ہوئے

اسی کے نور سے روشن ہیں کہکشائیں بھی

وہ ایک اسم جو میری زباں سے جاری ہے

جانب مقتل گھسیٹا جا رہا ہے

مجھ پہ یہ الزام ہے میں آدمی ہوں

اس حرف با صفا نے تو سولی چڑھا دیا

وہ ایک حرف حق جو مرے حافظے میں تھا

Recitation

بولیے