علی حیدر علوی کے اشعار
اس تجسس میں ہی ساحل پہ کھڑا رہتا ہوں
یہ سمندر بھی کسی آنکھ کا پانی تو نہیں
یہ وہ ندا ہے جو سب تک خدا سے آتی ہے
کہ نعت فن سے نہیں التجا سے آتی ہے
وہ پاؤں رکھنے لگی ہے ندی کے پانی میں
ہجوم گاؤں کا مشکیزے لے کے بیٹھا ہے
ترے بدن کی طنابیں تو میں نے کھینچی تھیں
مگر یہ خیمہ کسی اور کو نصیب ہوا
دکھائی دوں گا قلندر مگر یہ دیکھنا ہے
کوئی تلاش مری جستجو میں کتنی ہے
جو نہ ہوتا تھا چمتکار کیا ہے اس نے
ایک ملحد کو عزادار کیا ہے اس نے
ہوا سے پوچھ کے حجت تمام کر خود پر
فضا میں نقش ہیں قصے یہ کن پھریروں کے
یہ بھی اعزاز ہے مجھ کو کہ میں تجھ سے کم ہوں
یہ تو تقسیم ہے تبریز کہ میں رومی ہوں
جسے جسے بھی لگے وہ پگھل نہیں سکتا
اسے کہو مری کرنوں کے سامنے آئے