Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aslam Rashid's Photo'

اسلم راشد

1976 | گنا, انڈیا

اسلم راشد کے اشعار

13
Favorite

باعتبار

میرؔ غالبؔ یہیں تو رہتے تھے

ہم بھی دلی سے دل لگا لیں کیا

میں نے آواز بعد میں کھوئی

پہلے میں نے اسے پکارا تھا

ہجر میں جلتے ہوئے اس کو کہاں دیکھ سکا

اتنی تاخیر ہوئی صرف دھواں دیکھ سکا

آپ کا تو شوق ہے جلتے گھروں کو دیکھنا

آپ آنکھیں نم کریں گے آپ رہنے دیجیے

دن دن بھر آئینہ دیکھا جاتا ہے

تب جا کر دو چار اشارے بنتے ہیں

اچھا عمل سمجھ کے جو دریا میں ڈال دیں

دل کرتا ہے وہ نیکیاں پانی سے کھینچ لوں

بچھڑے تھے جس کی وجہ سے سیتا سے رام جی

میں اس ہرن کو رام کہانی سے کھینچ لوں

مجھ سے باہر نکل رہے تھے سب

میں بھی حیران سا نکل آیا

روٹھ جائیں گے مجھ سے اک دن سب

اس قدر روٹھتا ہوں میں سب سے

آنکھوں سے اک دریا نکلا

دریا سے کچھ لاشیں نکلیں

درد چہرہ پہن کے آیا تھا

تیرا چہرہ تھا سو قبول کیا

آنسو بتا رہے ہیں کہ مجھ میں ہے زندگی

یعنی میں انتظار میں پتھر نہیں ہوا

جواب ہنس کے دیا اس نے اور رونے لگا

سوال پوچھ کے شرمندگی بڑھی میری

میں سن رہا ہوں فون پہ خاموشیاں تری

میں جانتا ہوں آج سے کیا کیا تمام ہے

دھوپ میں دیکھ کر پرندوں کو

اگنے لگتا ہے اک شجر مجھ میں

پہلے اس کی آنکھیں سوچی جاتی ہیں

پھر آنکھوں میں رات بتائی جاتی ہے

ہنسی ان کے لبوں تک آ گئی ہے

مکمل ہو گیا رونا ہمارا

مسلسل ساتھ سورج کے چلی تو

کسی دن ڈوب جائے گی نظر بھی

کچھ سزا اور بڑھ گئی اس پر

زخم کھائے تو مسکرائے کیوں

قبر پر پھول رکھنے آیا تھا

پھر یہیں گھر بنا لیا میں نے

سب کو کانٹوں پہ شک ہوا تھا مگر

زخم کے آس پاس پھول ملے

اسی پانی میں لاشیں تیرتی ہیں

اسی پانی میں پتھر بیٹھتے ہیں

ایک پردا ہے صرف سانسوں کا

سانس ٹھہرے تو کائنات کھلے

ڈھونڈ رہا ہے دریا کس کو

روز کنارے ٹوٹ رہے ہیں

آنکھوں سے کیا ریت گرے گی

دریا تو اب سوکھ چکا ہے

ہوتا نہیں اداس کسی دکھ سے میں کبھی

اتنے حسین لوگ مرے آس پاس ہیں

Recitation

بولیے