اسلم راشد کے اشعار
ہجر میں جلتے ہوئے اس کو کہاں دیکھ سکا
اتنی تاخیر ہوئی صرف دھواں دیکھ سکا
آپ کا تو شوق ہے جلتے گھروں کو دیکھنا
آپ آنکھیں نم کریں گے آپ رہنے دیجیے
دن دن بھر آئینہ دیکھا جاتا ہے
تب جا کر دو چار اشارے بنتے ہیں
اچھا عمل سمجھ کے جو دریا میں ڈال دیں
دل کرتا ہے وہ نیکیاں پانی سے کھینچ لوں
بچھڑے تھے جس کی وجہ سے سیتا سے رام جی
میں اس ہرن کو رام کہانی سے کھینچ لوں
روٹھ جائیں گے مجھ سے اک دن سب
اس قدر روٹھتا ہوں میں سب سے
آنسو بتا رہے ہیں کہ مجھ میں ہے زندگی
یعنی میں انتظار میں پتھر نہیں ہوا
جواب ہنس کے دیا اس نے اور رونے لگا
سوال پوچھ کے شرمندگی بڑھی میری
میں سن رہا ہوں فون پہ خاموشیاں تری
میں جانتا ہوں آج سے کیا کیا تمام ہے
پہلے اس کی آنکھیں سوچی جاتی ہیں
پھر آنکھوں میں رات بتائی جاتی ہے
اسی پانی میں لاشیں تیرتی ہیں
اسی پانی میں پتھر بیٹھتے ہیں