اظہر اقبال کے شعر
گھٹن سی ہونے لگی اس کے پاس جاتے ہوئے
میں خود سے روٹھ گیا ہوں اسے مناتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تمہارے آنے کی امید بر نہیں آتی
میں راکھ ہونے لگا ہوں دئیے جلاتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نیند آئے گی بھلا کیسے اسے شام کے بعد
روٹیاں بھی نہ میسر ہوں جسے کام کے بعد
یہ کیفیت ہے میری جان اب تجھے کھو کر
کہ ہم نے خود کو بھی پایا نہیں بہت دن سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہے اب بھی بستر جاں پر ترے بدن کی شکن
میں خود ہی مٹنے لگا ہوں اسے مٹاتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہر ایک شخص یہاں محو خواب لگتا ہے
کسی نے ہم کو جگایا نہیں بہت دن سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
پھر اس کے بعد منایا نہ جشن خوشبو کا
لہو میں ڈوبی تھی فصل بہار کیا کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہر ایک سمت یہاں وحشتوں کا مسکن ہے
جنوں کے واسطے صحرا و آشیانہ کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے