Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aziz Bano Darab Wafa's Photo'

عزیز بانو داراب وفا

1926 - 2005 | لکھنؤ, انڈیا

لکھنو کی ممتاز شاعرہ جنھوں نے اپنے اظہار میں نسائی جذبات کو جگہ دی

لکھنو کی ممتاز شاعرہ جنھوں نے اپنے اظہار میں نسائی جذبات کو جگہ دی

عزیز بانو داراب وفا کے اشعار

8.4K
Favorite

باعتبار

میں جب بھی اس کی اداسی سے اوب جاؤں گی

تو یوں ہنسے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا

شہر خوابوں کا سلگتا رہا اور شہر کے لوگ

بے خبر سوئے ہوئے اپنے مکانوں میں ملے

ورق الٹ دیا کرتا ہے بے خیالی میں

وہ شخص جب مرا چہرہ کتاب ہوتا ہے

مرے اندر ڈھنڈورا پیٹتا ہے کوئی رہ رہ کے

جو اپنی خیریت چاہے وہ بستی سے نکل جائے

زمین موم کی ہوتی ہے میرے قدموں میں

مرا شریک سفر آفتاب ہوتا ہے

میں اس کے سامنے عریاں لگوں گی دنیا کو

وہ میرے جسم کو میرا لباس کر دے گا

وہ مرا سایہ مرے پیچھے لگا کر کھو گیا

جب کبھی دیکھا ہے اس نے بھیڑ میں شامل مجھے

کہنے والا خود تو سر تکیے پہ رکھ کر سو گیا

میری بے چاری کہانی رات بھر روتی رہی

جب کسی رات کبھی بیٹھ کے مے خانے میں

خود کو بانٹے گا تو دے گا مرا حصہ مجھ کو

گئے موسم میں میں نے کیوں نہ کاٹی فصل خوابوں کی

میں اب جاگی ہوں جب پھل کھو چکے ہیں ذائقہ اپنا

آئینہ خانے میں کھینچے لئے جاتا ہے مجھے

کون میری ہی عدالت میں بلاتا ہے مجھے

یہ حوصلہ بھی کسی روز کر کے دیکھوں گی

اگر میں زخم ہوں اس کا تو بھر کے دیکھوں گی

میرے حالات نے یوں کر دیا پتھر مجھ کو

دیکھنے والوں نے دیکھا بھی نہ چھو کر مجھ کو

اس گھر کے چپے چپے پر چھاپ ہے رہنے والے کی

میرے جسم میں مجھ سے پہلے شاید کوئی رہتا تھا

وفا کے نام پر پیرا کئے کچے گھڑے لے کر

ڈبویا زندگی کو داستاں در داستاں ہم نے

کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی

میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا

میری خلوت میں جہاں گرد جمی پائی گئی

انگلیوں سے تری تصویر بنی پائی گئی

چراغ بن کے جلی تھی میں جس کی محفل میں

اسے رلا تو گیا کم سے کم دھواں میرا

اک وہی کھول سکا ساتواں در مجھ پہ مگر

ایک شب بھول گیا پھیرنا جادو وہ بھی

میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی

زندگی اوڑھے ہوئے میں بے خبر سوتی رہی

ہم متاع دل و جاں لے کے بھلا کیا جائیں

ایسی بستی میں جہاں کوئی لٹیرا بھی نہیں

ہم نے سارا جیون بانٹی پیار کی دولت لوگوں میں

ہم ہی سارا جیون ترسے پیار کی پائی پائی کو

ہم ایسے سورما ہیں لڑ کے جب حالات سے پلٹے

تو بڑھ کے زندگی نے پیش کیں بیساکھیاں ہم کو

میں کس زبان میں اس کو کہاں تلاش کروں

جو میری گونج کا لفظوں سے ترجمہ کر دے

تمام عمر کسی اور نام سے مجھ کو

پکارتا رہا اک اجنبی زبان میں وہ

زندگی بھر میں کھلی چھت پہ کھڑی بھیگا کی

صرف اک لمحہ برستا رہا ساون بن کے

ایک مدت سے خیالوں میں بسا ہے جو شخص

غور کرتے ہیں تو اس کا کوئی چہرہ بھی نہیں

چمن پہ بس نہ چلا ورنہ یہ چمن والے

ہوائیں بیچتے نیلام رنگ و بو کرتے

بچھڑ کے بھیڑ میں خود سے حواسوں کا وہ عالم تھا

کہ منہ کھولے ہوئے تکتی رہیں پرچھائیاں ہم کو

پکڑنے والے ہیں سب خیمے آگ اور بے ہوش

پڑے ہیں قافلہ سالار مشعلوں کے قریب

سننے والے مرا قصہ تجھے کیا لگتا ہے

چور دروازہ کہانی کا کھلا لگتا ہے

بجھا کے رکھ گیا ہے کون مجھ کو طاق نسیاں پر

مجھے اندر سے پھونکے دے رہی ہے روشنی میری

اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے

اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو

ہماری بے بسی شہروں کی دیواروں پہ چپکی ہے

ہمیں ڈھونڈے گی کل دنیا پرانے اشتہاروں میں

مرے اندر سے یوں پھینکی کسی نے روشنی مجھ پر

کہ پل بھر میں مری ساری حقیقت کھل گئی مجھ پر

کوئی موسم میری امیدوں کو راس آیا نہیں

فصل اندھیاروں کی کاٹی اور دیئے بوتی رہی

میں اپنے جسم میں رہتی ہوں اس تکلف سے

کہ جیسے اور کسی دوسرے کے گھر میں ہوں

مجھے کہاں مرے اندر سے وہ نکالے گا

پرائی آگ میں کوئی نہ ہاتھ ڈالے گا

میں شاخ سبز ہوں مجھ کو اتار کاغذ پر

مری تمام بہاروں کو بے خزاں کر دے

اب بھی کھڑی ہے سوچ میں ڈوبی اجیالوں کا دان لئے

آج بھی ریکھا پار ہے راون سیتا کو سمجھائے کون

زرد چہروں کی کتابیں بھی ہیں کتنی مقبول

ترجمے ان کے جہاں بھر کی زبانوں میں ملے

فسانہ در فسانہ پھر رہی ہے زندگی جب سے

کسی نے لکھ دیا ہے طاق نسیاں پر پتہ اپنا

میری تصویر بنانے کو جو ہاتھ اٹھتا ہے

اک شکن اور مرے ماتھے پہ بنا دیتا ہے

میں نے یے سوچ کے بوئے نہیں خوابوں کے درخت

کون جنگل میں اگے پیڑ کو پانی دے گا

میں بھی ساحل کی طرح ٹوٹ کے بہہ جاتی ہوں

جب صدا دے کے بلاتا ہے سمندر مجھ کو

وہ یہ کہہ کہہ کے جلاتا تھا ہمیشہ مجھ کو

اور ڈھونڈے گا کہیں میرے علاوہ مجھ کو

میں اس کی دھوپ ہوں جو میرا آفتاب نہیں

یہ بات خود پہ میں کس طرح آشکار کروں

کسی جنم میں جو میرا نشاں ملا تھا اسے

پتا نہیں کہ وہ کب اس نشان تک پہنچا

دھوپ میری ساری رنگینی اڑا لے جائے گی

شام تک میں داستاں سے واقعہ ہو جاؤں گی

ٹٹولتا ہوا کچھ جسم و جان تک پہنچا

وہ آدمی جو مری داستان تک پہنچا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے