بیخود موہانی کے اشعار
امید کا یہ رنگ ہے ہجوم رنج و یاس میں
کہ جس طرح کوئی حسیں ہو ماتمی لباس میں
لذت کبھی تھی اب تو مصیبت سی ہو گئی
مجھ کو گناہ کرنے کی عادت سی ہو گئی
کیوں الجھتے ہو ہر اک بات پے بیخودؔ ان ث
تم بھی نادان بنے جاتے ہو نادان کے ساتھ
اس کے ہاتھوں نہ ملا چین مجھی کو دم بھر
مجھ سے لے کر دل بے تاب کرو گے کیا تم
نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے کبھی سجدے کئے خاک نشیمن پر
وہاں اب سانس لینے کی صدا آتی ہے مشکل سے
جو زنداں گونجتا رہتا تھا آواز سلاسل سے
حصر کعبہ پہ کیا ہے دیر سہی
حج کا موسم نہیں تو سیر سہی