بیتاب عظیم آبادی کے اشعار
لڑ گئی ان سے نظر کھنچ گئے ابرو ان کے
معرکے عشق کے اب تیر و کماں تک پہنچے
اثر نہ پوچھیے ساقی کی مست آنکھوں کا
یہ دیکھیے کہ کوئی ہوشیار باقی ہے
تڑپ کے رہ گئی بلبل قفس میں اے صیاد
یہ کیا کہا کہ ابھی تک بہار باقی ہے
کتنے الزام آخر اپنے سر
تم نے غیروں کو سر چڑھا کے لئے
دل جو دیتا ہے ذرا سوچ لے انجام کو بھی
ان کی آنکھوں میں مروت نہیں کچھ نام کو بھی