بھگوان داس اعجاز کے دوہے
ہوگی اک دن گھر مرے پھولوں کی برسات
میں پگلا اس آس میں ہنستا ہوں دن رات
بھیتر کیا کیا ہو رہا اے دل کچھ تو بول
ایک آنکھ روئے بہت ایک ہنسے جی کھول
ہم جگ میں کیسے رہے ذرا دیجئے دھیان
رات گزاری جس طرح دشمن گھر مہمان
آسمان پر چھا گئی گھٹا گھور گھنگور
جائیں تو جائیں کہاں ویرانے میں شور
ہم اس گھر میں ہیں گھرے جس کے آنکھ نہ کان
نکل بھاگنا بھی کٹھن دانتوں بیچ زبان