بھگوان داس اعجاز کے دوہے
آج مجھی پر کھل گیا میرے دل کا راز
آئی ہے ہنستے سمے رونے کی آواز
ہوگی اک دن گھر مرے پھولوں کی برسات
میں پگلا اس آس میں ہنستا ہوں دن رات
آسمان پر چھا گئی گھٹا گھور گھنگور
جائیں تو جائیں کہاں ویرانے میں شور
ہم جگ میں کیسے رہے ذرا دیجئے دھیان
رات گزاری جس طرح دشمن گھر مہمان
بھیتر کیا کیا ہو رہا اے دل کچھ تو بول
ایک آنکھ روئے بہت ایک ہنسے جی کھول
دنیا سے اوجھل رہے لیا لبادہ اوڑھ
سارے تن پر چھا گیا من کا کالا کوڑھ
جو دیکھا سمجھا سنا غلط رہا میزان
اور نکٹ آ زندگی ہو تیری پہچان
کہنے لگے اب آئیے سر پر ہے تہوار
گھر میرا نزدیک ہے تاروں کے اس پار
سینے کے بل رینگ کر سیمائیں کیں پار
میں بونوں کے گاؤں سے گزرا پہلی بار
دنیا تھک گئی پوچھتے رہے سدا ہم مون
سمجھے گا تیرے سوا من کی بھاشا کون
بیگانوں سے کیا گلہ گھر میں ہے غدار
آس پاس رکھیے نظر آنکھیں رکھیے چار
کٹھن راہ اپکار کی اتنا رہے خیال
پگڑی ذرا سی بھول پر دیتے لوگ اچھال
ہم نے بھی کچھ سوچ کر بدلے تیور طور
وہ اندر کچھ اور تھا اوپر سے کچھ اور
کہیں گگن کے پار ہوں کہیں بیچ پاتال
میرے چاروں اور ہے تصویروں کا جال
خود ہی اپنی موت کا باندھے ہے سامان
انجانے ہیں راستے راہی ہے نادان
رات بتائیں گے وہیں آئے تھے من ٹھان
تم کہہ کر تو دیکھتے ہم جھٹ جاتے مان
جل گئی اپنی آگ سے جنگل کی سب گھاس
دھرتی تب دلہن بنے جب ہو ساون ماس
دوش پرائے سر مڑھے بھیتر باہر روئے
ہر کوئی اپنی راہ میں آپ ہی کانٹے بوئے
نین چین موسم سماں سب کچھ لیتا چھین
یہ گھر اپنا ہے ہمیں ہوتا نہیں یقین
وہ چنچل کل شام کو لیے ہاتھ میں ہاتھ
لوک لاج کو تیاگ کر ناچی میرے ساتھ
ہاں بھئی وہ بھی تھا سمے بھولے بھالے لوگ
سنتے تھے کہ رات میں چڑیا چگتی چوگ
کاندھے لادے گھومتے وہ اپنی ہی لاش
جو اوروں کی خامیاں کرتے رہے تلاش
ڈھگ ڈھلان رستہ وکٹ ساؤدھان انجان
گاڑی تیری کانچ کی ہے لوہے کا سامان
چڑ جائے جب پوچھتی کیسے ہو گھنشیام
اس نے بھی تو رکھ لیا میرا میرا نام
من اپنا بہروپیا دھارے کتنے روپ
نٹکھٹ پہچانے نہیں چڑھتی ڈھلتی دھوپ
باتیں ہوں گی پیار کی ملا آج ایکانت
نین اتاریں آرتی من کا سنشیے شانت
مر گئی مارے لاج کے پوچھا توڑا مون
چوہوں کو بل کھودنا سکھلاتا ہے کون
مہا نگر میں آن کے بھولے دعا سلام
ہمسایہ جانے نہیں ہمسائے کا نام
پیاسے ہونٹوں کو ملی ٹھنڈی ہوا سے آنچ
دو جسموں کی آنچ سے لگا پگھلنے کانچ
مالا جپتا نام کی وہ دیوانہ شام
اچھا لگے پکارتا میرا میرا نام
سو جا سونے دے مجھے مت کر نیند خراب
دانے اپنی گانٹھ کے بنا بھوک مت چاب
کہیں تجھے لگ جائے نہ پردیسن کی ہائے
آ ساجن اب لوٹ کے ساون بیتا جائے
ہم اس گھر میں ہیں گھرے جس کے آنکھ نہ کان
نکل بھاگنا بھی کٹھن دانتوں بیچ زبان
جوگی آیا دوار پر خالی لوٹا کال
روگی ماٹی چاٹ کر اٹھ بیٹھا تتکال
لوبھ بنے احسان کو ترت اتارا جائے
قرضائی ہو جائے منہ کھائے آنکھ شرمائے
مجھے تھما کر جھنجھنا لوگ لے گئے مال
بھل منسائی میں رہے ہم ٹھن ٹھن گوپال
آگے وہ کتنا چلے پیچھے بھی ہیں پاؤں
چار ٹانگ کا آدمی دور دوڑتی چھانو
ناکوں چبوائے چنے ہم نے کتنی بار
ہمسایہ بے شرم ہے جب دیکھو تیار
جھونکی طوطا چشم نے مری آنکھ میں دھول
بند لفافے میں مجھے اس نے بھیجے شول
اکسمات ہونے لگی پھولوں کی برسات
جب سیمائیں پیار کی ٹوٹیں آدھی رات
تو میری اردھانگنی لی میں نے سوگندھ
آنسو ٹپکے پیار کے کر لی آنکھیں بند
سکھی بہت اولے پڑے برکھا کے اپرانت
ہوئی نہ کم برہا اگن تن من اور اشانت
شہنائی کی جب کہیں کان پڑے آواز
جل بن مچھلی کی طرح تڑپ اٹھے اعجازؔ
اوپر جا کر کٹ گیا میں پتنگ مانند
اترا جیسے آنکھ میں کوئی موتیابند
لگی آتما کوسنے ڈسنے لگا خیال
کیوں دوجے کے دوش کو اتنا دیا اچھال
کان پکڑ توبہ کیے ایسی بکری پال
دودھ دیا سو کیا دیا دیا مینگنی ڈال
دغاباز مکار کے اور دیکھ انداز
ہاں رسی تو جل گئی گئے نہ بل اعجازؔ
ابھی ملن کو ساجنا دن نا بیتے چار
سینے پر رکھ کر شلا دو دن اور گزار
تھم جا رے بدرا کروں تیری جے جے کار
پی گھر آویں تو برس برس موسلا دھار
جگنو چمکے آس کے اجلی ہو گئی شام
پنچھی ان کے گاؤں سے لایا ہے پیغام