Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bhagwan Das Ejaz's Photo'

بھگوان داس اعجاز

1932 - 2020 | دلی, انڈیا

مشہور شاعر،اپنے دوہوں کے لیے جانے جاتے ہیں

مشہور شاعر،اپنے دوہوں کے لیے جانے جاتے ہیں

بھگوان داس اعجاز کے دوہے

1.7K
Favorite

باعتبار

آج مجھی پر کھل گیا میرے دل کا راز

آئی ہے ہنستے سمے رونے کی آواز

ہوگی اک دن گھر مرے پھولوں کی برسات

میں پگلا اس آس میں ہنستا ہوں دن رات

آسمان پر چھا گئی گھٹا گھور گھنگور

جائیں تو جائیں کہاں ویرانے میں شور

ہم جگ میں کیسے رہے ذرا دیجئے دھیان

رات گزاری جس طرح دشمن گھر مہمان

بھیتر کیا کیا ہو رہا اے دل کچھ تو بول

ایک آنکھ روئے بہت ایک ہنسے جی کھول

دنیا سے اوجھل رہے لیا لبادہ اوڑھ

سارے تن پر چھا گیا من کا کالا کوڑھ

جو دیکھا سمجھا سنا غلط رہا میزان

اور نکٹ آ زندگی ہو تیری پہچان

کہنے لگے اب آئیے سر پر ہے تہوار

گھر میرا نزدیک ہے تاروں کے اس پار

سینے کے بل رینگ کر سیمائیں کیں پار

میں بونوں کے گاؤں سے گزرا پہلی بار

دنیا تھک گئی پوچھتے رہے سدا ہم مون

سمجھے گا تیرے سوا من کی بھاشا کون

بیگانوں سے کیا گلہ گھر میں ہے غدار

آس پاس رکھیے نظر آنکھیں رکھیے چار

کٹھن راہ اپکار کی اتنا رہے خیال

پگڑی ذرا سی بھول پر دیتے لوگ اچھال

ہم نے بھی کچھ سوچ کر بدلے تیور طور

وہ اندر کچھ اور تھا اوپر سے کچھ اور

کہیں گگن کے پار ہوں کہیں بیچ پاتال

میرے چاروں اور ہے تصویروں کا جال

خود ہی اپنی موت کا باندھے ہے سامان

انجانے ہیں راستے راہی ہے نادان

رات بتائیں گے وہیں آئے تھے من ٹھان

تم کہہ کر تو دیکھتے ہم جھٹ جاتے مان

جل گئی اپنی آگ سے جنگل کی سب گھاس

دھرتی تب دلہن بنے جب ہو ساون ماس

دوش پرائے سر مڑھے بھیتر باہر روئے

ہر کوئی اپنی راہ میں آپ ہی کانٹے بوئے

نین چین موسم سماں سب کچھ لیتا چھین

یہ گھر اپنا ہے ہمیں ہوتا نہیں یقین

وہ چنچل کل شام کو لیے ہاتھ میں ہاتھ

لوک لاج کو تیاگ کر ناچی میرے ساتھ

ہاں بھئی وہ بھی تھا سمے بھولے بھالے لوگ

سنتے تھے کہ رات میں چڑیا چگتی چوگ

کاندھے لادے گھومتے وہ اپنی ہی لاش

جو اوروں کی خامیاں کرتے رہے تلاش

ڈھگ ڈھلان رستہ وکٹ ساؤدھان انجان

گاڑی تیری کانچ کی ہے لوہے کا سامان

چڑ جائے جب پوچھتی کیسے ہو گھنشیام

اس نے بھی تو رکھ لیا میرا میرا نام

من اپنا بہروپیا دھارے کتنے روپ

نٹکھٹ پہچانے نہیں چڑھتی ڈھلتی دھوپ

باتیں ہوں گی پیار کی ملا آج ایکانت

نین اتاریں آرتی من کا سنشیے شانت

مر گئی مارے لاج کے پوچھا توڑا مون

چوہوں کو بل کھودنا سکھلاتا ہے کون

مہا نگر میں آن کے بھولے دعا سلام

ہمسایہ جانے نہیں ہمسائے کا نام

پیاسے ہونٹوں کو ملی ٹھنڈی ہوا سے آنچ

دو جسموں کی آنچ سے لگا پگھلنے کانچ

مالا جپتا نام کی وہ دیوانہ شام

اچھا لگے پکارتا میرا میرا نام

سو جا سونے دے مجھے مت کر نیند خراب

دانے اپنی گانٹھ کے بنا بھوک مت چاب

کہیں تجھے لگ جائے نہ پردیسن کی ہائے

آ ساجن اب لوٹ کے ساون بیتا جائے

ہم اس گھر میں ہیں گھرے جس کے آنکھ نہ کان

نکل بھاگنا بھی کٹھن دانتوں بیچ زبان

جوگی آیا دوار پر خالی لوٹا کال

روگی ماٹی چاٹ کر اٹھ بیٹھا تتکال

لوبھ بنے احسان کو ترت اتارا جائے

قرضائی ہو جائے منہ کھائے آنکھ شرمائے

مجھے تھما کر جھنجھنا لوگ لے گئے مال

بھل منسائی میں رہے ہم ٹھن ٹھن گوپال

آگے وہ کتنا چلے پیچھے بھی ہیں پاؤں

چار ٹانگ کا آدمی دور دوڑتی چھانو

ناکوں چبوائے چنے ہم نے کتنی بار

ہمسایہ بے شرم ہے جب دیکھو تیار

جھونکی طوطا چشم نے مری آنکھ میں دھول

بند لفافے میں مجھے اس نے بھیجے شول

اکسمات ہونے لگی پھولوں کی برسات

جب سیمائیں پیار کی ٹوٹیں آدھی رات

تو میری اردھانگنی لی میں نے سوگندھ

آنسو ٹپکے پیار کے کر لی آنکھیں بند

سکھی بہت اولے پڑے برکھا کے اپرانت

ہوئی نہ کم برہا اگن تن من اور اشانت

شہنائی کی جب کہیں کان پڑے آواز

جل بن مچھلی کی طرح تڑپ اٹھے اعجازؔ

اوپر جا کر کٹ گیا میں پتنگ مانند

اترا جیسے آنکھ میں کوئی موتیابند

لگی آتما کوسنے ڈسنے لگا خیال

کیوں دوجے کے دوش کو اتنا دیا اچھال

کان پکڑ توبہ کیے ایسی بکری پال

دودھ دیا سو کیا دیا دیا مینگنی ڈال

دغاباز مکار کے اور دیکھ انداز

ہاں رسی تو جل گئی گئے نہ بل اعجازؔ

ابھی ملن کو ساجنا دن نا بیتے چار

سینے پر رکھ کر شلا دو دن اور گزار

تھم جا رے بدرا کروں تیری جے جے کار

پی گھر آویں تو برس برس موسلا دھار

جگنو چمکے آس کے اجلی ہو گئی شام

پنچھی ان کے گاؤں سے لایا ہے پیغام

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے