بھاسکر شکلا کے اشعار
ستاروں آسماں کو جگمگا دو روشنی سے
دسمبر آج ملنے جا رہا ہے جنوری سے
اگر ہے عشق سچا تو نگاہوں سے بیاں ہوگا
زباں سے بولنا بھی کیا کوئی اظہار ہوتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم یہاں کاٹنے آئے ہیں شب فرقت یار
ہم ذرا بھی ہیں اگر خوش تو غنیمت جانو
بہت آسان ہے کہنا برا کیا ہے بھلا کیا ہے
کرو گے عشق تب معلوم ہوگا مسئلہ کیا ہے
ہیں دسترس میں یوں تو زبانیں کئی مگر
خاموشی آج بھی میری پہلی پسند ہے
مسکراہٹ اوڑھ کر یوں ہی نہیں رہتا ہوں میں
جھانک کر دیکھو کبھی اندر بہت ٹوٹا ہوں میں
کون سا تجھ سے ملانے کے لیے آیا ہے
یہ نیا سال بھی جانے کے لیے آیا ہے
گئی شب نیند میں چلتے ہوئے دیکھا گیا مجھ کو
بتایا تھا کسی نے خواب میں تیرا پتہ مجھ کو
کسی کی موت کا دکھ ہے مگر اس سے زیادہ
مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ کوئی رو رہا ہے
اوروں کا بتایا ہوا رستا نہیں چنتے
جو عشق چنا کرتے ہیں دنیا نہیں چنتے
نہیں جانتا میں تری خامشی کی وجوہات کیا ہیں
نہیں مانتا میں کہ تجھ تک صدائیں پہنچتی نہیں ہیں
ہجر نے اس کے ہمیں بخشی غزل
ہم فراق یار کا غم کیوں کریں
اک ندی صحرا کی ہونا چاہتی ہے
اک ندی جس پر سمندر کھل گیا ہے
تمہارے شہر سے گزری تھی گاڑی
اترنے کا بہت من کر رہا تھا
مکاں تو ہے نہیں جو کھینچ دیں دیوار اس دل میں
کوئی دوجا نہیں رہ پائے گا اب یار اس دل میں
وہ بھی مقام آئے ہے مجنوں کے بخت میں
لیلیٰ دکھائی دینے لگے ہر درخت میں
کچھ بولو کہ خاموشی چپ ہو جائے
اس کی باتیں سن کر کے ڈر لگتا ہے
خواہش سب رکھتے ہیں تجھ کو پانے کی
اور پھر اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے