داؤد محسن کے اشعار
زندگی ٹوٹ کے بکھری ہے سر راہ ابھی
حادثہ کہیے اسے یا کہ تماشا کہیے
رفاقتوں کا جہاں تار تار دیکھا ہے
وجود زیست کا اڑتا غبار دیکھا ہے
ضبط کی تھی شرط دل سے جانے کیوں
لمحہ لمحہ بیکلی ہونے لگی
میں چاہتا ہوں تمہیں اپنی زندگی کی طرح
مرے وجود پہ چھا جاؤ چاندنی کی طرح
اتنے فریب کھائے ہیں قربت میں یار کی
محسنؔ فریب اور بھی کھایا نہ جائے گا
کتنا عجیب تر ہے عقیدہ جناب کا
پتھر کی مورتوں سے وفا مانگ رہے ہو
ہر ایک شام سنور جائے گی مری محسنؔ
ہر ایک بات تمہاری ہے شاعری کی طرح
سارے جہاں میں قصے یہ مشہور ہو گئے
بھائی ہمارے منکر دستور ہو گئے
زخم دل داغ جگر داغ تمنا کی قسم
چاند سے پھول سے ڈر ہم کو یہاں ہوتا ہے
افسانہ درد و غم کا سنایا نہ جائے گا
اب زخم دل کسی کو دکھایا نہ جائے گا
کون اپنا ہے یہاں کون پرایا کہیے
کون دیتا ہے بھلا دکھ میں سہارا کہیے
نہیں ہے پاس کسی کا کسی کو اے محسنؔ
کہ آزما کہ انہیں بار بار دیکھا ہے
ہر طرف درد کا آہوں کا سماں ہوتا ہے
پانی جلتا ہے سمندر میں دھواں ہوتا ہے