Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Haseebul Hasan's Photo'

حسیب الحسن

1995 | خوشاب, پاکستان

حسیب الحسن کے اشعار

342
Favorite

باعتبار

حضور آپ تکلف میں کیوں پڑے ہوئے ہیں

مرے ہوؤں کے جنم دن نہیں مناتا کوئی

لاکھ میٹھے ہوں ترے شہر کے چشمے لیکن

ہم ترے شہر کو خوش آب نہیں کہہ سکتے

قسم ہے تیرے تغافل کی تجھ سے پہلے مجھے

نہیں پتہ تھا کہ احساس کمتری کیا ہے

تمہارے حسن کا صدقہ اترنا لازمی ہے

سو یوں کرو کسی بچے کو ماتھا چومنے دو

پاگل کیا ہے عشق نے آدھا جو رہ گیا

اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں

میں کئی کام تو دانستہ غلط کرتا تھا

تاکہ وہ نقص نکالے کہ نہیں ایسے کر

تجھے پتہ تھا میں تیرے بغیر کچھ بھی نہیں

ذرا ترس بھی نہ آیا تجھے بچھڑتے ہوئے

ہمارے دل سے نکلتے ہوؤں کو سات سلام

وہ اس لیے کہ وہ اس حبس میں مکین رہے

تمہارے جانے کے بعد ہم نے سکون ڈھونڈا کچھ اس طرح سے

بچھڑنے والوں کے پاؤں پڑنا انہیں جدائی سے باز رکھنا

ہمارے بعد کوئی سر پرست مل نہ سکا

یتیم خانے میں رکھا گیا محبت کو

پہلے بھی میرے گاؤں میں گھائل ہیں تین شخص

آزار آگہی کا میں چوتھا مریض ہوں

ہم ایسے لوگ ضائع ہو رہے ہیں

خدا چپ چاپ دیکھے جا رہا ہے

ستارے دیکھنے والے ہمیں بتاتے ہیں

ہمارے ہونٹ تمہاری جبیں کو ترسیں گے

اس کے معیار پر خدا لائے

اس نظر تک تو آ گئے ہیں ہم

پچھلے جنم کا کوئی تعلق تھا اس کے ساتھ

دیکھے بغیر مجھ کو خد و خال یاد تھے

خوف اس درجہ مسلط تھا ترے بعد حسنؔ

دل دھڑکتا تھا تو ہم خود سے لپٹ جاتے تھے

تمہاری آنکھوں پہ نظم کہنے سے پہلے ہم نے بھگوئی آنکھیں

سنا ہوا تھا زمین نم ہو تو اچھی ہوتی ہے کاشتکاری

میں بہت سوچ کے بچھڑا تھا محرم میں حسیبؔ

میں نے اس شخص کو رونے کی سہولت دی تھی

ہمی پریم چند کی کہانیوں کے لوگ ہیں

وہ لوگ جن کی عمر کو ادھار نے نگل لیا

نہ میرے پاس تسلی نہ اس کے پاس آنسو

خدا کے سامنے بے بس کھڑے ہیں ہم دونوں

ہماری خیر ہے لیکن بس اک گزارش ہے

ہمارے بعد کسی سے بھی یوں نہیں کرنا

اسے بتانا پرندے اسے بلاتے ہیں

اسے بتانا کہ شاعر اداس ہے اس کا

یہ ساتھ گاؤں میں ایک چھوٹا سا کام ہے بس

مری اداسی اداس مت ہو میں آ رہا ہوں

اب اس کی مرضی مسافر کہے کہ گرد پا

میں اس کے ساتھ مسلسل سفر میں رہتا ہوں

ہماری وحشت کسی پرانے کھنڈر کے آسیب کی امانت

ہماری غزلیں ہماری دیوی کی ایک ترچھی نظر کا صدقہ

داد کب پاتے ہیں اس میرؔ کی دیوانی سے

زنگ آلود تخیل سے کھرونچے ہوئے شعر

زمانے بھر کی دعائیں مرے لئے تھیں مگر

میں چاہتا ہی نہیں تھا کہ صبر آ جائے

ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں

فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا

شاہزادی کی مرضی ہے لیکن

مجھ سے اچھا غلام کوئی نہیں

خدا کے بعد اسے مجھ پہ مان تھا کیونکہ

خدا کے بعد اسے میں ہی پیار کرتا تھا

تیرے خوابوں کے پیچھے بھاگی تھیں

میری آنکھوں میں پڑ گئے چھالے

ابھی سے سوچ لو پھر واپسی نہیں ہوگی

طلسم بڑھتا ہی جائے گا دن بہ دن اس کا

تمہارا حسن یہ کھلتا ہے جیسے دھیرے سے

ہمارے شعر بھی ایسے ہی دیر پا ہوں گے

Recitation

بولیے