عشق اورنگ آبادی کے اشعار
شیوۂ افسردگی کو کم نہ بوجھ
خاک کا کہتے ہیں عالم پاک ہے
عاشق کی سیہ روزی ایجاد ہوئی جس دن
اس روز سے خوابوں کی یہ زلف پریشاں ہے
یہ بت حرص و ہوا کے دل کے جب کعبہ میں توڑوں گا
تمہاری سبحہ میں کب شیخ جی زنار چھوڑوں گا
لیلیٰ کا سیہ خیمہ یا آنکھ ہے ہرنوں کی
یہ شاخ غزالاں ہے یا نالۂ مجنوں ہے
عشقؔ روشن تھا وہاں دیدۂ آہو سے چراغ
میں جو یک رات گیا قیس کے کاشانے میں
اے مقلد بو الہوس ہم سے نہ کر دعوائے عشق
داغ لالہ کی طرح رکھتے ہیں مادر زاد ہم
کہیو خودبیں سے کہ آئینہ میں تنہا مت بیٹھ
خطر آسیب کا رہتا ہے پری خانے میں
ہو گل بلبل تبھی بلبل پہ بلبل پھول کر گل ہو
ترے گر گل بدن بر میں قبائے چشم بلبل ہو
مزا آب بقا کا جان جاناں
ترا بوسہ لیا ہووے سو جانے
اس کی آنکھوں کے اگر وصف رقم کیجئے گا
شاخ نرگس کو قلم کر کے قلم کیجئے گا
تو نے کیا دیکھا نہیں گل کا پریشاں احوال
غنچہ کیوں اینٹھا ہوا رہتا ہے زردار کی طرح
نہیں معلوم دل میں بیٹھ کے کون
چشم کی دوربیں سے دیکھے ہے
گر شیخ نے آہ کی تو مت بھول
دل میں پتھر کے بھی شرر ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے
مقابل ہو ہمارے کسب تقلیدی سے کیا طاقت
ابھی ہم محو کر دیتے ہیں آئینہ کو اک ہو میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گرفتاری کی لذت اور نرا آزاد کیا جانے
خوشی سے کاٹنا غم کا دل ناشاد کیا جانے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آنکھوں سے دل کے دید کو مانع نہیں نفس
عاشق کو عین ہجر میں بھی وصل یار ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ