Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kamran Nafees's Photo'

کامران نفیس

1977 | کراچی, پاکستان

کامران نفیس کے اشعار

84
Favorite

باعتبار

منتظر ہوں تری آواز سے تصویر تلک

ایک وقفہ ہی تو درکار تھا ملنے کے لیے

اب حال یہ ہے کہ رات ہے اور

سنسان سی ایک رہ گزر ہے

کل دوپہر کو ساتھ رہا تھا وہ دیر تک

پھر اس کے بعد شام رہی شام ہی رہی

آنکھ کو نم کیے بغیر دل کو برا کئے بغیر

اس کی گلی سے آ گئے ہم تو صدا کیے بغیر

پریشاں ہے بہت اس درد سے دل

ہوا ٹھہرے تو کچھ تدبیر ٹھہرے

حبس بڑھتا ہے آہ بھرنے سے

میرے حصے کی سانس مت کھینچو

یہ صور ہے دوسری دفعہ کا

اور لوگ تمام سو رہے ہیں

وہ اک آواز تھی منزل نہیں تھی

مگر میں اس کی جانب چل پڑا تھا

یہ تو ہم شہر میں کچھ دن سے نہیں ہیں ورنہ

کیا تمہاری وہ چلے گی جو ہماری چلی ہے

کھیل رچا کر شہر اجاڑیں کٹھ پتلی کے ساتھ

لشکر کے سالار تماشا گر بھی ہوتے ہیں

غم کہاں دیکھنے کی شے ہے مگر

دیدنی ہے وہ سوگوار نکھار

اور آتا اگر خیال ان کا

اور سرشار ہو گئے ہوتے

نظروں کا بے چین بگولہ گرد اڑاتا پھرتا ہے

جس محفل میں تم نہیں ہوتے اس محفل کے صحرا میں

نہ بن پڑی کوئی صورت تو ایک دن گھر سے

میں چل دیا کسی نقصان کی تلافی میں

صف بہ صف تیری محبت نے سنبھالا ہم کو

اور ہم ٹوٹ کے بکھرے بھی تو یکجائی رہی

ہوا ٹکرا رہی ہے کینوس سے

بکھرتے جا رہے ہیں رنگ سارے

اور کھلتی ہی چلی جائے گی شب

ہم تری زلف اگر کھولتے جائیں

دل دھڑکنے کا سبب زندگی ہو سکتی ہے

یہ ضروری تو نہیں ہے کہ تری یاد ہی ہو

آخری پرندے کی ڈوبتی ہوئی آواز

شام ہونے والی ہے اب ہمیں اجازت ہے

آواز پہ کون ٹھیرتا ہے

رک جاؤ گے ہم جہاں کہیں گے

تیز ہوتی ہے سر شام ہوا

اور ہو جاتی ہے سفاک الگ

اس ایک لمحے کی رائیگانی کا دکھ ہے سارا

وہ تیری قربت میں جو گزرنے سے رہ گیا تھا

دکھائی بھی نہیں دے گی بدن غرقاب کر کے

میان وصل اک چالاک خاک اڑتی رہے گی

ایک ہی در تھا گلی میں وہ بھی دروازہ ہوا

جب سے ہر آواز پر بے کار میں کھلنے لگا

ہمارے چاک گریباں کا تار تھا یہ کبھی

یہ جس پھریرے کو نکلے ہیں آپ لہرانے

کھڑکی کا یہ بھاری پردہ

ہجر میں ململ ہو جاتا ہے

شجر پر جب سے ہرجانے لگے ہیں

پرندے چھوڑ کر جانے لگے ہیں

خط شکستہ میں کیا جانے کب کشید آ جائے

کہ سانس روک کے کریو میاں کتابت عشق

آ جاتی ہیں کچھ خوشیاں اندیشوں میں

کچھ اندیشے خوشیوں میں آ جاتے ہیں

مان لینا ہے ضروری جاننے سے

تیرگی میں آئینے کو دیکھنا کیا

میں نے ہجرت کو لکھا واقعۂ گمشدگی

اور پڑاؤ میں ہوئی موت کو منزل لکھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے