کاشف سید کے اشعار
ایسا نہ ہو کہ دوستی بھی جائے ہاتھ سے
ہم ہاتھ میں گلاب لئے سوچتے رہے
ہم جون ایلیاؔ کے زمانے میں دوستو
غالبؔ کا انتخاب لئے سوچتے رہے
ذرا سا وقت جو بدلا تو ہم پہ ہنسنے لگے
ہمارے کاندھے پہ سر رکھ کے رونے والے لوگ
لوگ ہم سے سیکھتے ہیں غم چھپانے کا ہنر
آؤ تم کو بھی سکھا دیں مسکرانے کا ہنر
ہجرتوں کے کرب کو ایسے چھپانا ہے تمہیں
کوئی جب بھی حال پوچھے مسکرانا ہے تمہیں
اس پرائے شہر میں اے کاش کوئی یہ کہے
رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھانا ہے تمہیں
شکستہ ناؤ سمجھ کر ڈبونے والے لوگ
نہ پا سکے مجھے ساحل پہ کھونے والے لوگ
آنکھوں میں اپنی خواب لئے سوچتے رہے
جیسے کوئی کتاب لئے سوچتے رہے