Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

ماتم فضل محمد

1815 - 1897 | حیدرآباد, پاکستان

ماتم فضل محمد کے اشعار

1.6K
Favorite

باعتبار

پوجتا ہوں کبھی بت کو کبھی پڑھتا ہوں نماز

میرا مذہب کوئی ہندو نہ مسلماں سمجھا

جہاں سے ہوں یہاں آیا وہاں جاؤں گا آخر کو

مرا یہ حال ہے یارو نہ مستقبل نہ ماضی ہوں

خط دیکھ کر مرا مرے قاصد سے یوں کہا

کیا گل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز

کوئی آزاد ہو تو ہو یارو

ہم تو ہیں عشق کے اسیروں میں

رخسار کا دے شرط نہیں بوسۂ لب سے

جو جی میں ترے آئے سو دے یار مگر دے

دیکھ کر ہاتھ میں تسبیح گلے میں زنار

مجھ سے بیزار ہوئے کافر و دیں دار جدا

آتش کا شعر پڑھتا ہوں اکثر بحسب حال

دل صید ہے وہ بحر سخن کے نہنگ کا

اگر سمجھو نماز زاہد مغرور یارو

ہزاروں بار بہتر تر ہماری بے نمازی ہے

عمر دو چار روز مہماں ہے

خدمت مہماں کروں نہ کروں

دیتا ہے روز روز دلاسے نئے نئے

کس طرح اعتبار ہو حافظؔ کے فال پر

کیا کہوں دن کو کس قدر رویا

رات دلبر کو دیکھ کر رویا میں

آج مسجد میں نظر آتا تو ہے میکش مگر

مطلب اس کا بیچنا ہے شیخ کی دستار کا

جاں بلب دم بھر کا ہوں مہمان یار

ایک بوسہ میری مہمانی کرو

ہاتھ کا بازو کا گردن کا کمر کا کس کے

ہم کو تعویذوں میں یہی چار ہی بھائے تعویذ

تخم ریحاں کھلا طبیب مجھے

یعنی ہوں میں مریض حضرت خال

اپنے بھی عشق کو زوال نہ ہو

نہ تمہارے جمال کو ہے کمال

چھوٹتا ہے ایک تو پھنستے ہیں آ کر اس میں دو

آج کل ہے گرم تر کیا خوب بازار قفس

ہندو بچہ نے چھین کے دل مجھ سے یوں کہا

ہندوستاں بھی کشور ترکاں سے کم نہیں

لا ولد کہتے ہیں ہم کو لا ولد

شعر سے از بس کہ اولادی ہیں ہم

مرجع گبر و مسلماں ہے وہ بت نام خدا

بھیجتے ہیں اسے ہندو و مسلماں کاغذ

رحم کر ہم پر بھی دل بر ہیں ترے

عشق کے ہاتھوں سے آواروں کے بیچ

دریا میں وہ دھویا تھا کبھی دست حنائی

حسرت سے وہیں پنجۂ مرجاں میں لگی آگ

عشق خوباں نہیں ہے ایسی شے

باندھ کر رکھئے جس کو پڑیا میں

آج کل جو کثرت شوریدگان عشق ہے

روز ہوتے جاتے ہیں حداد نوکر سیکڑوں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے