Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

مرزا مسیتابیگ منتہی

مرزا مسیتابیگ منتہی کے اشعار

764
Favorite

باعتبار

ہے خوشی اپنی وہی جو کچھ خوشی ہے آپ کی

ہے وہی منظور جو کچھ آپ کو منظور ہو

خود رحم کیجیے دل امیدوار پر

آپھی نکالئے کوئی صورت نباہ کی

ہے دولت حسن پاس تیرے

دیتا نہیں کیوں زکوٰۃ اس کی

یوں انتظار یار میں ہم عمر بھر رہے

جیسے نظر غریب کی اللہ پر رہے

چلے گا تیر جب اپنی دعا کا

کلیجے دشمنوں کے چھان دے گا

بوسہ جو مانگا بزم میں فرمایا یار نے

یہ دن دہاڑے آئے ہیں پگڑی اتارنے

مجھ سا عاشق آپ سا معشوق تب ہووے نصیب

جب خدا اک دوسرا ارض و سما پیدا کرے

جسے ذوق بادہ پرستی نہیں ہے

مرے سامنے اس کی ہستی نہیں ہے

جس قدر وہ مجھ سے بگڑا میں بھی بگڑا اس قدر

وہ ہوا جامہ سے باہر میں بھی ننگا ہو گیا

امید ہے ہمیں فردا ہو یا پس فردا

ضرور ہوئے گی صحبت وہ یار باقی ہے

دنیا کا مال مفت میں چکھنے کے واسطے

ہاتھ آیا خوب شیخ کو حیلہ نماز کا

آیا پیام وصل یکایک جو یار کا

معلوم یہ ہوا کہ گئے دن زوال کے

سکھلا رہا ہوں دل کو محبت کے رنگ ڈھنگ

کرتا ہوں میں مکان کی تعمیر آج کل

جلا کر زاہدوں کو میکشوں کو شاد کرتے ہیں

گرا کر مسجدوں کو میکدے آباد کرتے ہیں

بال کھولے نہیں پھرتا ہے اگر وہ سفاک

پھر کہو کیوں مجھے آشفتہ سری رہتی ہے

اذاں دے کے ناقوس کو پھونک کر

تجھے ہر طرح کب پکارا نہیں

کعبہ و دیر ایک سمجھتے ہیں رند پاک

پابند یہ نہیں ہیں حرام و حلال کے

پھاڑ ہی ڈالوں گا میں اک دن نقاب روئے یار

پھینک دوں گا کھود کر گلزار کی دیوار کو

تہمت جرم و خطا حرص و ہوا غفلت دل

ہم نے بازار سے ہستی کے لیا کیا کیا کچھ

اسیر کر کے ہمیں حکم دے گیا صیاد

قفس ہو تنگ تو ان کے نہ بال و پر رکھنا

بعد مرنے کے ٹھکانے لگ گئی مٹی مری

خاک سے عاشق کی کیا کیا یار کے ساغر بنے

تیرے بازار دہر میں گردوں

ہم بھی آئے ہیں اک قبا کے لئے

جدھر کو مری چشم تر جائے گی

ادھر کام دریا کا کر جائے گی

لطیف روح کے مانند جسم ہے کس کا

پیادہ کون وقار سوار رکھتا ہے

مسافرانہ رہا اس سرائے ہستی میں

چلا پھرا میں زمانہ میں رہ گزر کی طرح

ہوتے ہوتے نہ ہوا مصرع رنگیں موزوں

بند کیوں ہو گیا خون جگر آتے آتے

پیری ہوئی شباب سے اترا جھٹک گیا

شاعر ہوں میرا مصرع ثانی لٹک گیا

ہو جاتی ہے ہوا قفس تن سے چھٹ کے روح

کیا صید بھاگتا ہے رہا ہو کے دام سے

تارک دنیا ہے جب سے منتہیؔ

مثل بیوہ مادر ایام ہے

صدائے قلقل مینا مجھے نہیں آتی

مرے سوال کا شیشے میں کچھ جواب نہیں

اس بت کو چھوڑ کر حرم و دیر پر مٹے

عقل شریف سے یہ نہایت بعید ہے

طفیل روح مرا جسم زار باقی ہے

ہوا کے دم سے یہ مشت غبار باقی ہے

نہ بند کر اسے فصل بہار میں ساقی

نہ ڈال دختر رز کا اچار شیشے میں

خیال اس صف مژگاں کا دل میں آئے گا

ہمارے ملک میں بھرتی سپاہ کی ہوگی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے