محمد علی ساحل کے اشعار
کوئی کرتا ہے جب ہندوستان کی بات اے ساحلؔ
مجھے اقبال کا قومی ترانہ یاد آتا ہے
میری آنکھوں میں ہوئے روشن جو اشکوں کے چراغ
ان کے ہونٹوں پر تبسم کا دیا جلتا رہا
سب کے ہونٹوں پہ واردات کے بعد
صرف میرا ہی نام ہوتا ہے
مرتے دم تک سب مجھ کو انسان کہیں
ایسا ہی کردار مرا ہو یا اللہ
مسئلے تو زندگی میں روز آتے ہیں مگر
زندگی کے مسئلوں کا حل نکلنا چاہیے
دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں
ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے
خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا
جو اثاثہ زندگی کا اس نے جوڑا عمر بھر
موت کا سیلاب جب آیا تو سب کچھ بہہ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ