Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Moid Rahbar's Photo'

معید رہبر

1985 | لکھنؤ, انڈیا

معید رہبر کے اشعار

131
Favorite

باعتبار

انا پرست ہوں مل جاؤں خاک میں لیکن

خرید سکتا نہیں کوئی مال زر سے مجھے

ہم مسافر ہیں کہاں گھر کی طرف دیکھتے ہیں

ہر گھڑی میل کے پتھر کی طرف دیکھتے ہیں

آج دیکھا انہیں جب زمانے کے بعد

آنکھ نم ہو گئی مسکرانے کے بعد

گر کچھ نہیں ہے یار ترے پاس غم تو ہے

تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے

لاکھ تبدیلیاں بازاروں میں آئیں رہبر

میں وہ سکہ ہوں جو ہر دور میں چل جاؤں گا

پہلے یہ سوچتا رہتا تھا کہ تنہا ہو جاؤں

آج تنہا ہوں تو تنہائی سے ڈر لگتا ہے

بکھر گیا ہوں میں رشتوں کی دوڑ سے کٹ کر

کوئی تو آ کے سمیٹے ادھر ادھر سے مجھے

خون کا گھونٹ کبھی زہر پیا ہے میں نے

زندگی تجھ کو بہر حال جیا ہے میں نے

میری آواز مرے جسم میں یوں گونجتی ہے

جیسے صحرا میں کوئی درد کی ماری آواز

جب سامنے نظر کے ہو اک حسن بے پناہ

ایسے میں خود کو ہوش میں رکھنا کمال ہے

مر کے بھی تجھ کو نئی فکر کے پہلو دوں گا

تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خوشبو دوں گا

زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے

کیا کوئی اور بھی گزرا ہے ادھر سے پہلے

رہو گھر میں زیادہ تو سفر آواز دیتا ہے

سفر میں جب نکل جاؤ تو گھر آواز دیتا ہے

ہم نے کردار سے بدلا ہے چلن دنیا کا

ہم سے سیکھے کوئی تہذیب رواداری کی

کہکشاں چاند ستارے ہیں فقط نقش قدم

دیکھتے جاؤ کہاں تک ہے رسائی میری

لوگ اوروں کے گریباں پہ نظر کرتے ہیں

ہم یہی کام بہ انداز دگر کرتے ہیں

انجام ہجر کیا ہے یہ تم خود ہی دیکھ لو

ہم انتظار یار میں پتھر کے ہو گئے

سب تعلق دھرے کے دھرے رہ گئے

ایک تار نفس ٹوٹ جانے کے بعد

مسرتوں کے بہت آس پاس بھی نہ رہے

خدا کا شکر مگر ہم اداس بھی نہ رہے

حالات ہم سے شہر کے یوں پوچھتے ہیں لوگ

جیسے ہم آدمی نہیں اخبار ہو گئے

دل ہی ٹوٹا ہو کچھ عجب تو نہیں

اشک آنکھوں میں بے سبب تو نہیں

جس کو دیکھو وہ بڑھا جاتا ہے سوئے منزل

کس کو فرصت جو مرے پاؤں کے چھالے دیکھے

زیر اثر نہیں ہے کسی رہنما کے ہم

مالک اسی لیے ہیں خود اپنی رضا کے ہم

سر افلاک ہوگی روح مٹی میں بدن ہوگا

کریں گے قدر اک دن یوں زمین و آسماں میری

شریفانہ رکھو کردار لیکن

شرافت بزدلی ہونے نہ پائے

یہ روز روز کا جھگڑا فساد ٹھیک نہیں

میں چاہتا ہوں کہ اب عین شین قاف کروں

اس کی طرف سے میری طرف آ رہے ہیں لوگ

آہٹ یہ لگ رہی ہے کسی انقلاب کی

جب صدا صور کی گونجے گی زمانے بھر میں

اک فرشتے میں سمٹ آئے گی ساری آواز

ہمیں پہ ختم ہے معیار گلشن ہستی

ہمارے بعد نہ خوشبو چمن سے آئے گی

یہ دنیا ہے یہاں کچھ بھی ہو لیکن

وہاں شرمندگی ہونے نہ پائے

اللہ نے بخشی ہے مجھے ایسی بصیرت

دریا بھی ہوا جاتا ہے قطرہ مرے آگے

جب عرش معلےٰ پہ مرے نقش قدم ہیں

کیا چیز ہے پھر اوج ثریا مرے آگے

یہ اس سے ربط و ضبط بڑھانے کا ہے صلہ

اس کی خطا کو میری خطا مانتے ہیں لوگ

ہر طرف بکھری ہیں ارمانوں کی لاشیں دور تک

زندگی اک جنگ کا میدان ہو کر رہ گئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے