مشتاق احمد نوری کے افسانے
جن کی سواری
آج پھر قمر آرا پر جن کی سواری ہے۔ ایسا جب بھی ہوتا ہے پورے گاؤں میں بھونچال سا آ جاتا ہے۔ جسے دیکھو وہ ادھر ہی دوڑا جا رہا ہے۔ ان میں بہت سے تو صرف تماش بین ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ان باتوں پر یقین نہیں ہوتا، پھر بھی وہ اپنی آنکھ سے دیکھ
لمبے قد کا بونا
پورے پنڈال کی نگاہیں ایک میز پر مرکوز ہیں جس پر سترہ اٹھارہ سال کی شالو نام کی، نیم برہنہ لڑکی ایک پہیے والی سائیکل پر بیٹھی ہے۔ وہ دونوں پاؤں پیڈل پر رکھے سائیکل کو بیلنس کرتی ہوئی داہنے پاؤں پر ایک طشتری رکھتی ہے، پھر اسے اٹھا کر اس طرح اچھالتی ہے
چھت پر ٹھہری دھوپ
کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ ہم دونوں خود اپنے ساتھ فریب کر رہے ہیں؟ آخر اس خود فریبی میں مبتلا ہو کر ہم کس حقیقت سے فرار چاہ رہے ہیں۔ زندگی فرار کا نام تو نہیں ہے؟ زندگی تو خود سپردگی کا نام ہے۔ تو پھر اپنے آپ کو چھلنے کی یہ خواہش اپنے ہی ساتھ کی
لمبی ریس کا گھوڑا
آج وہ بہت خوش تھا۔ اس نے اپنے طور پر بہت بڑا تیر مار لیا تھا، حالانکہ اس کی بیوی سلمیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ان کے ساتھ تمہیں ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ ’’اس سے اتنی ہمدردی کیوں؟ وہ تمہارا رشتہ دار لگتا ہے کیا؟‘‘
اعتبار
’’۴۰۸ نمبر کوارٹر میں تم آئے ہو؟‘‘ ’’جی ہاں۔‘‘ ’’تم بھی عجیب ہو یار۔ تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تم اس کوارٹر میں آئے ہو۔‘‘ ’’مجھے یہ نہیں معلوم تھاکہ یہاں آنے کے بعد اس کی اطلاع آپ کو دینی لازمی ہوگی۔‘‘ ’’ارے یار تم تو برا مان گئے۔ دراصل میں
مرد
وہ بےحد خوبصورت تھی۔ نہیں نہیں، اس کے حسن کی انتہا نہیں تھی۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ الفاظ میری گرفت میں نہیں آ رہے ہیں جن سے اس کے حسن کی سچی تعریف کی جا سکے۔ آپ ایسا کریں، اسے بےحد حسین مان ہی لیں تاکہ میری تسلی ہو جائے۔ رہی خدوخال کی بات
گہن چاند کا
اسے جیسے ہی ابو کا خط ملا وہ پریشان ہو گیا۔ خط بہت مختصر تھا، صرف چند سطریں ’’بیٹے ،خط ملتے ہی تم فورا چلے آؤ۔ تفصیل یہاں آنے پر بتاؤں گا۔‘‘ اس کی الجھن بڑھ گئی۔ آخر گھر میں کیا ہو گیا ہوگا؟ کہیں امی کی طبیعت تو پھر خراب نہیں ہو گئی، کہیں اس کی
شمائلہ
آخر شمائلہ نے جانے کا ارادہ کر ہی لیا۔ جس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔ آخر اتنی جلدی بھی کیا تھی۔ سب سے زیادہ پریشانی تو ہم سب کو تھی۔ بیگم بالکل گم صم تھیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ وہ کہیں تو کیا کہیں؟ شمائلہ سے پہلی ملاقات آج بھی یاد ہے۔ ایک
جادوگر
شہر کا سب سے بڑا میدان آدم زاد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ سورج طلوع ہونے کے قبل سے ہی میدان میں آنا شروع ہو گئے تھے تاکہ آسانی سے اسٹیج کے قریب کی جگہ انہیں مل سکے۔ میدان میں داخلے کے لئے کوئی ٹکٹ نہیں تھی، اس لئے بھیڑ میں ہر آن اضافہ ہوتا جا رہا
نظربند
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں بالکل تنہا خاموش پڑا رہتا ہوں۔ سامنے کوئی نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی میرے اندر سے چیخ ابھرتی رہتی ہے۔ پھریہ ہوتا ہے۔ کوئی میری دکھتی رگوں پر اپنی انگلیاں دھر دیتا ہے۔ میں بلبلانے لگتا ہوں اور تبھی میرے زخموں پر نمک پاشی شروع
اور پھر ایسا ہوا
(منشی پریم چند کے الگو چودھری اور شیخ جمن سے معذرت کے ساتھ) یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے گاؤں میں پھیل گئی، جس نے بھی سنا دنگ رہ گیا۔ ’’ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا؟‘‘ ’’پھر آج کیسے ہو گیا؟‘‘ کانوں کان یہ بات پھیلتی چلی گئی اور گاؤں میں بھگدڑ
وردان
ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر قد آدم آئینے پر پڑی۔ آئینے کو شاید جان بوجھ کر اس زاویے سے رکھا گیا تھاکہ ہر آنے والے کو اپنا آپا نظر آ جائے۔ اس نے لمحہ بھر کو آئینے میں دیکھا پھر ٹیبل پر رکھے ہوئے پیتل کے گلدان کو اٹھاکر اسے پوری طاقت سے آئینے