نیلم احمد بشیر کے افسانے
اجازت
دونوں میں دوستی ناگزیر تھی۔ دونوں جوان تھے، خوبرو تھے۔ بلا کے ذہین اور ایک سی سوچ رکھنے والے۔ گھنٹوں گپ شپ کرتے، بحثیں کرتے اور فلسفے جھاڑتے رہتے۔ وہ اسے کبھی کبھار چھیڑ کر ’’فلسفیہ‘‘ بھی کہہ ڈالتا تھا جس پر وہ پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جایا کرتی
بابا
کنول کو اپنے نصیبے پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ واقعی وہاں آ پہنچی تھی؟ یہ تو وہی جگہ تھی جس کا اس نے بچپن سے بس خواب ہی دیکھ رکھا تھا۔ ایسا خواب جس کی تعبیر کی اسے کوئی خاص امید بھی نہ تھی۔ اس کے سکول ماسٹر بابا غیاث الدین نے اس جگہ کے بارے میں اتنا
ضرب
چولستان بارڈر پر قائم پاکستانی یونٹ کو اطلاع ملی کہ ہندوستان کی طرف سے کرنل اروڑہ امن کے حوالے سے بارڈر کے کچھ اہم امور پر بات چیت کرنے کے لئے وزٹ پر آ رہے ہیں۔ کافی عرصہ سے بارڈر کے دونوں طرف کے لوگوں کے دل کی بھی یہی آواز تھی اور وہ یہ سوچتے تھے
میں اور میرا ساتھی
میرا خوف اور میں... ہم دونوں کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ اس ساتھی نے ہمیشہ میرا ساتھ نبھایا ہے۔ اس کی رفاقت میری زندگی کی چند پائیدار رفاقتوں میں سے ایک رہی ہے۔ ہم ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یہ ہمیشہ سے ہی مجھے پناہ دیتا آیا ہے۔ میں اور خوف ہم دونوں دوست ہیں، اچھے
ہست نیست
میرے بیٹے علی نے ہمیشہ کی طرح اپنا سکول بیگ شاپ کے ایک کونے میں پٹخا اور سٹول کھینچ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے بھی اپنا معمول کا سوال دہرایا۔ ’’کھانا کھا لیا تھا؟‘‘ حقیقت یہی ہے کہ ہر ماں اپنے بچے کے کھانے پینے کے بارے میں ہمیشہ متجسس اور
خلا
مہمانوں کے آنے سے پہلے فضیلہ نے اپنے بیک یارڈ پر ایک طائرا نہ نظر ڈالی۔ سب کچھ کتنا خو بصورت لگ رہا تھا۔ نفاست سے کٹی ہوئی ہری گھاس، ٹراپیکل پھولوں والے سرا مک کے نما ئشی گملے، لان کے ایک طرف نیلے نگینے کی طرح چمکتا ہوا بڑا سا سوئمنگ پول اور اس کے
اللہ کی مخلوق
دشوار گذار پہاڑی سلسلوں کے بیچوں بیچ انہوں نے اپنا خفیہ ٹھکانہ، اپنی پناہ گاہ بنا رکھی تھی۔ وہ اپنے ہر اس شکار کو یہیں لے کر آتے جسے اغوا کرنے کے بعد انہیں ایک موٹی رقم مل سکتی تھی۔ ان کی دہشت کو للکارنے کا کسی میں حوصلہ نہ تھا۔ اغوا شدہ افراد میں،
غم ہستی
چونکہ ہم دونوں اکٹھی اندر لائی گئیں تھیں اس لئے مجھے اس سے خواہ مخواہ ہی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ دونوں ایمبولینس گاڑیاں رکیں تو ہسپتال کے وارڈ بوائے جلدی جلدی آگے بڑھے، ہم دونوں کے سٹریچروں کو اٹھایا اور جلدی جلدی ہمیں آئی سی یو کی طرف لے کر بھاگے۔ مجھے
ایک اور دریا
سکینہ کے کانوں میں کسی کے باتیں کرنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔ آنکھیں موندے موندے اس نے حیرت سے سوچا، ’’میں مرچکی ہوں تو یہ آوازیں کیسے سنائی دے رہی ہیں۔ کیا انسان مرنے کے بعد بھی سن سکتا ہے۔ کیا پتہ یہ فرشتوں کی آوازیں ہوں۔ شاید میں جنت میں پہنچ