نورالعین ساحرہ کے افسانے
ایک گاؤں کی کہانی
نہر کے کنارے چلتے چلتے زمرد ٹھٹھک کر رکی، اچانک پلٹی اور پوری طرح اس منظر کی ہولناکی کا شکار ہو گئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا اور قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے۔ منہ اندھیرے اپنے محبوب سے چوری چھپے ملاقات کا نشہ ہرن ہو گیا اور اس کی جگہ دہشت نے لے لی۔ اضطراری حالت
پارکنگ لاٹ
جہاں جھیل میں رنگ برنگی بطخیں تیرا کرتیں جنہیں کچھ ننھے بچے ڈبل روٹی کھلاتے جبکہ قریب ہی انکی مائیں بنچوں پر بیٹھی خوش گیپیوں میں مصروف ہوتیں، کچھ لوگ اپنے پالتو جانوروں سمیت شام کی سیرکے مزے لیتے اور ذرا بڑی عمر کے بچے واک کے لئے بنی ٹریل پر سائیکل
ضرورت
یخ بستہ سرد موسم میں مری سے لاہور جانے والی فلائنگ کوچ بل کھاتے پہاڑی راستوں میں دور کہیں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ آفس کی استقبالیہ سیٹ پر بیٹھی ہوئی صابرہ نے بھی اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سکون کی سانس لی۔ ایک دو منٹ کے بعد دوبارہ اٹھی، بچی ہوئی ٹکٹوں
دو اور دو بائیس
"مجھے سو فیصد یقین ہے وہ کسی لڑکی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اپنی پڑھائی کی وجہ سے ان دنوں ہروقت انٹرنیٹ پر رہنے لگا ہے’’ ماریہ نے کچھ چڑتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہا تو اس کے چہرے پر پھیلا ادھوری سچائی کا پورا یقین مجھے بری طرح جھنجلاہٹ میں مبتلا کر
سنومین
باہر برف پڑ رہی تھی اور مسلسل پڑ رہی تھی۔ ایک گھر نما چار دیواری کے اندر ضمیر نے بڑبڑاتے ہوئے کمبل گھسیٹا اور اپنا منہ دیوار کی طرف کر کے خراٹے لینے لگا۔ کچھ ہی دیر پہلے جب یہ اندھیری رات برف اوڑھ رہی تھی تو زندگی ٹھٹھرتی، سکڑتی زمین کی گود میں منہ چھپانے