Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qamar Moradabadi's Photo'

قمر مرادآبادی

1910 - 1987

قمر مرادآبادی کے اشعار

3K
Favorite

باعتبار

اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب

دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

تشریح

رخسار یعنی گال، دولتِ حسن یعنی حسن کی دولت، دربان یعنی رکھوالا۔ یہ شعر اپنے مضمون کی ندرت کی وجہ سے زبان زدِ عام ہے۔ شعر میں مرکزی حیثیت ’’رخسار پر تل‘‘ کو حاصل ہے کیونکہ اسی کی مناسبت سے شاعر نے مضمون پیدا کیا ہے۔ محبوب کے رخسار کو دربان(رکھوالا) سے مشابہ کرنا شاعر کا کمال ہے۔ اور جب دولتِ حسن کہا تو گویا محبوب کے سراپا کو آنکھوں کے سامنے لایا۔

رخسار پر تل ہونا حسن کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر چونکہ محبوب پیکرِ جمال ہے اس خوبی کی مناسبت سے شاعر نے یہ خیال باندھا ہے کہ جس طرح بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے خوبصورت بچوں کے گال پر کالا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اسی طرح میرے محبوب کو لوگوں کی بری نظر سے بچانے کے لئے خدا نے اس کے گال پر تل رکھا ہے۔ اور جس طرح مال و دولت کو لٹیروں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر دربان (رکھوالے)بٹھائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح خدا نے میرے محبوب کے حسن کو بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے گال پر تل بنایا ہے۔

شفق سوپوری

کسی کی راہ میں کانٹے کسی کی راہ میں پھول

ہماری راہ میں طوفاں ہے دیکھیے کیا ہو

غم کی توہین نہ کر غم کی شکایت کر کے

دل رہے یا نہ رہے عظمت غم رہنے دے

مدتوں بعد جو اس راہ سے گزرا ہوں قمرؔ

عہد رفتہ کو بہت یاد کیا ہے میں نے

جس قدر جذب محبت کا اثر ہوتا گیا

عشق خود ترک و طلب سے بے خبر ہوتا گیا

یوں نہ ملنے کے سو بہانے ہیں

ملنے والے کہاں نہیں ملتے

لذت درد جگر یاد آئی

پھر تری پہلی نظر یاد آئی

حرف آنے نہ دیا عشق کی خودداری پر

کام ناکام تمنا سے لیا ہے میں نے

منزلوں کے نشاں نہیں ملتے

تم اگر ناگہاں نہیں ملتے

دیر و کعبہ سے جو ہو کر گزرے

دوست کی راہ گزر یاد آئی

قدم اٹھے بھی نہیں بزم ناز کی جانب

خیال ابھی سے پریشاں ہے دیکھیے کیا ہو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے