رفعت ناہید سجاد کے افسانے
ریت پر تیرتے جزیرے
’’انگریز بہادر بڑا مہربان رہا تھا تمہارے آغا جی کے دادا حضور پر اور کیوں نہ ہوتا بھئی۔ وہ بھی آڑے وقتوں میں انگریز کے بڑے کام آئے تھے۔ سن ستاون میں جب انگریز کا بوریا بستر گول ہوتا نظر آ رہا تھا تو تمہارے پڑدادا نے ان کی بڑی مدد کی۔ غدر کے موقع پر چھوٹے
ستارے، چاندنی، مے، پھول، خوشبو
ہال کمرے کے سوئچ کا کنٹرول نوجوانوں کے گروپ نے سنبھال لیا تھا۔ لہٰذا پیلی نیلی سرخ ہر قسم کی روشنیاں ناچتے ہوئے جوڑوں کے براؤن بالوں اور مایوس چہروں کو دمکانے لگیں۔ وہ اپنے چوڑے کندھوں پر جھکی ناچتی اس شوخ لڑکی کے ساتھ راؤنڈ مکمل کرکے بڑی شائستگی
دستک
رات کے کتنے پہر ہوتے ہیں اور یہ ان میں سے کونسواں پہر گزر رہا تھا،جانے؟ سفید کھدر کے لیمپ شیڈ کے نیچے وہ ابتدائے رات سے اپنے سے دگنی وزن کی کتاب لے کر بیٹھی تھی۔ گلاس میں رکھے دودھ پر یخ ہو کر کریم کی موٹی تہ جم گئی تھی۔ چوکیدار کی ڈرادینے والی سیٹی
سورج زمین پر اترا تھا
سائمہ رحیم الدین کی ڈھیر ساری ریہرسلز تھیں۔ یوں تو سائمہ ہر فیشن شو کو سنجیدگی سے لیتی تھی لیکن اس فیشن شو کی ایک خاص بات بھی تھی۔ ایک تو یہی ایک شو تھا جو سیزن پر ہو رہا تھا۔ لیکن بڑی بات وہ مغلیہ درباری کا رنگ ڈھنگ تھا جو پی سی کی سٹیج پر کمرشل آرٹس
آخری صفحہ
چیئرنگ کراس کے طویل گھماؤ والے فٹ پاتھ پر اس نے ’’سالوس‘‘ سے ان کو نکلتے دیکھا۔ چابی کا چھلا انگلی میں انگوٹھی کی طرح گھماتے وہ سڑک کے پار پارکنگ لاٹ کی طرف آ رہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر انگلیوں کے چھجے سے تیز دھوپ کی شعاعوں کو روکا۔ ہاں وہی تو تھے۔