سبین علی کے افسانے
گاڈ سیو دا کنگ
اس کے اطراف میں گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا۔ چاروں طرف ڈھول باجوں اور سنگینوں سے لیس لاٹھیوں نے اسے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ مگر وہ اپنے چھ بچوں کو مدتوں سے شروع کی گئی کہانی مکمل سنا دینا چاہتا تھا۔ کہانیاں اتنی آسانی سے کبھی مکمل نہیں ہوتیں۔ شیر اور چوہے
چیونٹیاں
رات کے کسی پہر وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا سارا بدن پسینے سے شرابور تھا اور سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی۔ جیسے ابھی ابھی کسی جکڑ بندی سے آزاد ہوا ہو۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ایسا کئی بار ہو چکا تھا مگر خواب اسے یاد نہ رہتا صبح اٹھ کر وہ معمول کے مطابق اپنے
ایتھنے اور سموں
جولاہے بہت پریشان تھے، انہیں ڈر تھا کہ کہیں کمہاروں کی بیٹی کی طرح ان کی بیٹی بھی کسی آفت کا شکار نہ ہو جائے۔ مگر سموں جولاہن جس کا خمیر جانے کس مٹی کا بنا تھا کسی کی بات پر کان نہ دھرتی تھی۔ حسن ہمیشہ مغرور ہوتا ہے یا مغرور سمجھ لیا جاتا ہے پس ایسا
رات کی مسافر
میرے حلق میں تمبوں کی کڑواہٹ اتری ہوئی ہے۔ دیکھ پرچھائیں۔۔۔ میری حیاتی میں سنھ لگاکر تو یہ کیوں چاہتی کہ میں تیری چاپلوسی کروں تجھے مکھن لگاٶں اور تو بھونگوں کی طرح میرے قدموں کی مٹی تلے کھڈیں نکال لے؟ دیکھ میں نے پہلے بھی تیری کسی ہم شکل کے سامنے
تلاش
وہ ایک شاعر اور مصور تھا جو بھٹکتا ہوا اس بستی میں آن پہنچا تھا جہاں اس کے اطراف میں موجود کل کائنات مٹی دھول اور اندھیروں سے اٹی تھی۔ اس کے ارد گرد نہ تو حسین چہرے تھے اور نہ ہی رنگا رنگ فطری مناظر جنہیں وہ کینوس پر اتار لیتا۔ اس نے اپنی تصویروں میں