سلمی صنم کے افسانے
قطار میں کھڑے چہرے
وہ ایک اداس، دل گرفتہ اور بوجھل سی شام تھی جب فلورا نے دیکھا کوے قطار میں کھڑے ہیں اور آسمان پرندوں سے بھرا ہے۔ دفعتہ کہیں سے Hipco کی ریش میوز ک ابھری اور فلورا کو لگا سر میں درد کی ایک شدید سی لہراٹھی ہے جو سرکتے ہوئے نیچے کمر کی طرف جا رہی ہے۔ ’’ایبولا‘‘
پت جھڑکے لوگ
جاڑوں کے آتے ہی ان بوڑھی کھوسٹ ہڈیوں کو جانے کیا ہو جاتا ہے کہ چیخنے لگتی ہیں، ہلنے لگتی ہیں کچھ اس قدرکہ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا ایک عذاب لگنے لگتا ہے۔ بوسیدہ سی کھٹیا پردراز خستہ لحاف میں دبکی خود کو آ دھی طرح گرماتے ہوئے میں نے بےاختیار سوچا۔ اف!!
سورج کی موت
ارے یہ کیا؟ صبح کا اخبار الٹتے ہوئے جیسے ہی آفتاب خاں کی نظر اس سرخی پرپڑی کہ سورج دھیرے دھیرے گل ہو رہا ہے۔ وہ بےاختیار چونکے۔۔۔ ہوگا یہ کوئی سائنسی انکشاف انہیں کیا پتہ۔ وہ تو بس اتنا جانتے تھے کہ سورج تو سوا نیزے پہ اٹکا ان کے اندر آگ اگل رہا ہے اور
وہ پرندہ
وہ پرندہ۔۔۔ بہت ہولے سے بہت چپکے سے ہزاروں میل کا سفر طئے کرکے جب سے پرندوں بھری اس جھیل میں آیا تھا۔ بہت اکیلا تھا۔ وہ۔۔۔ پہلی ہجرت۔۔۔ اجنبی سرزمین۔۔۔ اپنا تو کوئی نہیں۔ وہ کیا کرے؟ خدایا وہ کیا کرے؟ پرندوں بھری جھیل میں بے شمار پرندے تھے۔ جگمگاتے
تھکی ہوئی ناری
پھر وہی صبح تھی۔۔۔ ایک اور دن اور اس دن کے وہی تقا ضے وہی بوجھل کثیف لمحات اور وہی دو مختلف جہانوں کا بوجھ، جس کو ریزہ ریزہ ڈھوتے ہوئے نغمہ نے بے اختیار سوچا کہ اس کی دنیا میں سب کچھ بخیر کیوں نہیں؟ وہ Low cost Housing پراجکٹ کو لے کر بہت دنوں سے
کٹھ پتلی
’’میں جب بھی ان کا کوئی حکم بجالاتی ہے مجھے اس کٹھ پتلی کی یاد ضرور آتی جو کسی دن موئے اس Puppet Show میں دیکھی تھی۔ کیسے تھرک تھرک ناچتی تھی وہ۔۔۔ اور میری جو ڈور پیاسنگ بندھی تھی۔ میں توکہیں نہیں تھی۔ جو بھی تھے وہ ہی وہ تھے۔ لیکن کبھی کبھی من بہک
پانچویں سمت
اف!! وہ ایک چہرہ لو دیتا ہوا چہرہ محسوساتی مسکراہٹ مقناطیسی کشش، یہ چہرہ کیوں اس کے آگے آنے لگا تھا بار بار لگاتار کچھ پڑھتا ہوا، اس کے اندر کچھ کھوجتا ہوا یہ کہتا ہوا تم چاروں دشاؤں میں کیوں بھٹک رہی ہو، آؤ اس پانچویں سمت میں آؤ جو میرے اندر روشن ہے۔ رجنی
آرگن بازار
دل شام کا سورج تھا لمحہ لمحہ خون ہوتا ہوا افق کی گود میں سوتا ہوا اور چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکی۔ بےمحابا بکھرتی ہوئی تاریکی۔۔۔ اف! یہ تاریکی تو میرا مقدر ہے۔ ثمین نے بےاختیار سوچا۔ تاریکی جو اس کے اندر گھلتی ہوئی تاریکی جو گلی میں بکھرتی ہوئی۔ یہاں
بانس کا آدمی
بانس کے درختوں کے اس پار سورج غروب ہو رہا تھا اور شام کے ملگجے اجالے میں مکریاں (ٹوکریاں) سمیٹتی ہوئی رتنا کسی خواب کی طرح لگ رہی تھی۔ رنگا نے دیکھا جنگل کا سارا حسن اس کے اندر سمٹ آیا ہے۔ آج کل پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا۔ وہ جب بھی رتنا کی جانب دیکھنے
میری
وہ ایک سڑک جودل سے دماغ تک جاتی تھی میری اس پر کنفیوژ سی کھڑی تھی آج اس نے پھروہی خواب دیکھا تھا کہ ماں میری کی گود خالی ہے اور وہ چرچ میں اکیلی اداس دلگرفتہ سی سر جھکائے کھڑی ہیں۔کیوں؟ کیوں دیکھتی ہے وہ یہ خواب۔ بار بار لگاتار کہتے ہیں جو خیال شدید
طور پر گیا ہوا شخص
آسائشوں کی آگ لینے بے وطنی کے کوہ طور پر گیا تھا وہ شخص اور شہر کے نامور پارک میں یکا و تنہا اس کی بیوی گمراہ ہو رہی تھی۔ اس کے خیالات بھٹک رہے تھے، اس کی سوچیں لڑکھڑا رہیں تھیں فطری جبلتوں کے زہریلے سانپ لمحہ بہ لمحہ اس کو ڈس رہے تھے اور وہ بڑی بےبسی