ترنم ریاض کے افسانے
ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔۔۔
"ہو سکتا ہے یہ میری آخری خواہش ہو۔۔۔ تم سے۔۔۔ کچھ۔۔۔ میں آخری بار مانگ رہا ہوں شاید۔" شاہد نے نادیہ کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھ کر ٹھہر ٹھہر کر کہا۔ "مجھے۔۔۔ ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ ایسا مت کہو۔۔۔" نادیہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ "کس بات سے۔۔۔؟ میری
یمبرزل
اس انجام کا خدشہ سب کو تھا مگر اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ ماں اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔ باپ اسے قبول نہیں کرپا رہا تھا۔ یاور ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اور انیقہ۔۔۔ ’’نِکی باجی۔۔۔ یہ الجیبرا مجھے ضرور فیل کرےگا۔۔۔‘‘ یوسف نے پھرن کے اندر
شہر
پلاسٹک کی میز پر چڑھ کر سونو نے نعمت خانے کی الماری کا چھوٹا سا کواڑ وا کیا تو اندر قسم قسم کے بسکٹ، نمک پارے، شکر پارے اور جانے کیا کیا نعمتیں رکھیں تھیں۔ پل بھر کو وہ ننھے سے دل پر کچوکے لگاتا ہوا غم بھول کر مسکرا دیا اور نائٹ سوٹ کی لمبی آستین سے
میرا کے شیام
’’کس سے بات کرنا ہے؟‘‘ فون پر جاذب سی نسوانی آواز سن کر صبیحہ نے پوچھا۔ ’’جی۔ آپ ہی سے۔‘‘ آواز میں ہلکی سے کھنک شامل ہو گئی۔ صبیحہ اس آواز کو بخوبی پہچانتی تھی۔ یہ وہ آواز تھی جس کی وجہ سے اسے عجیب عجیب تجربے ہوئے تھے۔ مختلف حالات سے دوچار ہونا
مجسمہ
عظمیٰ چیخ سن کر پلٹی تو دیکھا کہ اس کی سات سالہ بیٹی کا چہرہ سفید پڑ رہا ہے۔ بہت عرصے بعد آج صبح ہی اُس نے نوٹ کیا تھا کہ عُنّاب کے رخسار پہلی بار گہرے گلابی نظر آنے لگے تھے۔ "کیا ہوا بِٹیا؟" عظمیٰ مختصر سے پتھریلے زینے پر ٹھہر گئی اور پلٹ کر عنّاب
بی بی
بی بی ڈائینگ ٹیبل کے کونے سے پیٹھ ٹکائے اور ایک ہتھیلی کرسی کی پشت کے اونچے حصے پر دھر کر اپنے بدن کو سہارا دیے کھڑی اپنے پیروں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا سر وقفے وقفے سے ہلکے سے جھٹکے کھا کر ہل جاتا۔ ناک سکیڑنے کی آواز بھی رہ رہ کر سماعت سے ٹکراتی اور
ٹیڈی بیئر
سیاہ چشمے کی بائیں جانب کے کھلے حصے میں سے وہ اسے چپکے چپکے دیکھ رہی تھی، جو خود میں گم گا رہا تھا اور گٹار بھی بجا رہا تھا۔ گاڑی کے ہلکوروں کے ساتھ اس کے ماتھے پر آگے کو لا کر پیچھے کی طرف سجائے گئے بال بھی جھول جاتے۔ اس نے قلمیں بڑھا رکھی تھیں جو
حضرات و خاتون
انہوں نے داہنی اور بائیں جانب نظر ڈالی۔ پھر سامنے کھڑکی کے باہر کی طرف دیکھا۔ ملحقہ غسل خانے سے بہتے نل کے شور میں سے سلمان صاحب کے ناک سڑکنے کی آواز ابھری تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مسہری سے اٹھ کر پیروں کے انگوٹھوں کو نرم سے سلپروں کے اوپر
یہ تنگ زمین
میں نے جب اپنے خریدے ہوئے خوبصورت کھلونوں کو ڈھیر کی شکل میں لاپرواہی سے ایک کونے میں پڑا ہوا دیکھا تو مجھے دکھ سا ہوا۔یہ کھلونے کتنے چاؤ سے لائی تھی میں اس کے لیے۔ یہ چھوٹا سا پیانو۔۔۔ یہ جلترنگ۔۔۔ یہ چھوٹی سی گٹار، چہکنے والی ربر کی بلبل، ٹیں ٹیں
تجربہ گاہ
ایک ایسے خوبصورت اور امیر شخص کی کہانی، جو اپنی عیش پرستی کی وجہ سے خود کو ہلاک و برباد کر لیتا ہے۔ مرنے کے بعد اس کی ممی بنا دی جاتی ہے اور پھر صدیوں بعد ایک جینیٹک انجینیئر اس میں دوبارہ جان ڈال دیتا ہے۔ اتنے سال مردہ رہنے کے بعد بھی اس کی یادداشت برقرار رہتی ہے اور وہ بیتی زندگی کو پھر سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جب انجینیئر اسے حقیقت سے واقف کراتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے۔
کشتی
یہ افسانہ کشمیر میں تعینات ہندوستانی فوج اور کشمیری عوام کے ساتھ ان کے رشتوں کے رد عمل کو بیان کرتی ہے۔ ٹیلیفون بوتھ پر لمبی قطار ہے۔ قطار میں کھڑے دو شخص ایک زخمی بچے کو لیے ٹیلیفون کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ تبھی وہاں ایک اسلحہ بند فوجی آتا ہے۔ وہ مجمع کو ہٹاتے ہوئے زخمی بچہ لیے شخص کو پہلے فون کرنے کے لیے کہتا ہے۔ بچے کے پیر سے خون نکل رہا ہے۔ اسی درمیان ایک عورت وہاں آ جاتی ہے جو اس فوجی کے برتاؤ کو دیکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے وہ سبھی فوجی یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے کشمیریوں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں۔ انہیں یادوں میں اسے اپنی بیتی زندگی بھی یاد آتی اور ساتھ ہی یاد آتے ہیں، باپ اور بھائی، جو کشمیر کے لیے قربان ہو گئےتھے۔
پوتھی پڑھی پڑھی
بالکنی میں کھڑے ہونے کے بعد جب میں نے اوپر نظر اٹھائی تو راکھ کے رنگ کے آسمان کو دیکھتے ہی طبیعت بجھ سی گئی۔ اُداسیاں پھن پھیلائے میرے دائیں بائیں آ کھڑی ہوئیں۔ مجھے خود کو ان ناگنوں کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے۔ زندگی ٹھہر تو نہیں گئی۔ ایسا نہیں ہے
ایسے مانوس صیّاد سے۔ ۔ ۔
"کبھی کبھی آپ کو ایسا تو محسوس نہیں ہوتا کہ اگر آپ نے گھر خالی کر دیا ہوتا تو مشرا جی کے بچوّں کا گھر شاید نہ ٹوٹتا۔" شینا نے سعید صاحب کے چہرے کی طرف بغور دیکھا۔ اسے یقین تھا کہ اس بات کے جواب میں سعید صاحب کے ضمیر کا سارا بوجھ اس کے سامنے عیاں
رنگ
آج اس نے پھر ویسا ہی خواب دیکھا۔وہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔ کیوں۔۔۔؟۔۔۔ کیوں دیکھتی ہوں میں یہ خواب۔ کہتے ہیں خواب میں انسان اپنی ادھوری خواہشات کو تکمیل کے عمل تک پہنچاتا ہے۔۔۔ میری تو کوئی خواہش ادھوری نہیں۔۔۔ کوئی کمی نہیں زندگی میں۔ ایک مکمل انسان ہوں
بلبل
اس افسانے کا موضوع ایک ایسی عورت ہے، جو اپنے گھر میں بہت خوش ہے۔ اسے ان عورتوں کے بارے میں جان کر حیرت ہوتی ہے جو ہر وقت یہ شکایت کرتی رہتی ہیں کہ وہ بور ہو رہی ہیں، ان کا وقت نہیں گزر رہا ہے۔ اسے تو اپنے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ایک بار وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ہل اسٹیشن پر گھومنے جاتی ہے۔ وہاں اسے ہر جگہ، ہر چیز پرکشش لگتی ہے۔ واپسی سے ٹھیک پہلے اس کی بیٹی بیمار پڑ جاتی ہے اور پھر پیکنگ کے وقت اسے اتنے کام کرنے پڑتے ہیں کہ وہ خود کو پنجرے میں قید ایک بلبل کی طرح محسوس کرنے لگتی ہے۔
بالکنی
کہانی ایک ایسے کشمیری نوجوان فوجی کی ہے، جو 15 سال بعد اپنے بچپن کے گھر میں واپس آتا ہے۔ حالانکہ وہ گھر اب اس کا نہیں ہے، پھر بھی وہ گھر میں بغیر اجازت داخل ہو جاتا ہے۔ منع کرنے کے بعد بھی وہ گھر کی ایک ایک چیز کو بغور دیکھتا ہے اور اپنی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ گھر کی عورتیں اس سے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے گھر میں اس وقت کوئی مرد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے یہاں کوئی دہشت گرد ٹھہرا ہے۔ وہ ان کی باتیں سن کر مسکراتا ہے اور گھر کے اس آخری حصہ میں پہنچ جاتا ہےجہاں کبھی بالکنی ہوا کرتی تھی۔ مگر اب اس جگہ دیوار ہے۔ وہ جب اس دیوار کو دیکھتا ہے تو اسے بالکنی کی یاد آتی ہے اور وہ منہ چھپا کر رونے لگتا ہے۔