ذاکرہ شبنم کے افسانے
پیاسی ممتا
رات بھر کافی زوروں کی بارش ہوئی تھی، اس وجہ سے صبح بھی موسم کافی ٹھنڈا سا تھا، ہلکی ہلکی ہوائیں چل رہی تھیں، صبح کے سات بجے تھے، دودھ والے نے جب دروازہ پر دستک دی تو میری آنکھیں کھلیں، میں نے جیسے ہی دودھ لینے کی غرض سے دروازہ کھولا تو باہر ٹھنڈ سے ٹھٹھرتی
حب الوطنی
آج علی رحمان کی شادی ہو ئے صرف ایک ماہ گذرا تھا۔ علی اپنی شادی کے لیے دو ماہ کی چھٹی لے کر اپنے گھر دلی آیا ہوا تھا۔ اسے اپنی شریک حیات کے روپ میں پڑھی لکھی بہت ہی خوبصورت اور نیک سیرت رو شنی مل گئی تھی۔ وہ رو شنی کو پا کر بےحد خوش تھا۔ علی رحمان آرمی
پیار اور جہیز
تمنا خوبصورت ہو نے کے ساتھ ساتھ نہا یت شریف اور نیک سیرت لڑکی تھی۔ وہ شہر میں رہنے کے باوجود بھی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکی۔ صرف میٹرک پا س کیا تھا۔ وہ کالج جانا چاہتی تو جا سکتی تھی لیکن اسے کالج کے ماحول سے ہی ڈر لگتا تھا۔ اس لیے وہ گھر پر ہی اچھی
عجیب سزا ہے غریب ہونا بھی
رات کے نو بج رہے تھے، ٹرین جیسے ہی اسٹیشن پر رکی سبھی قلی ٹرین کی جانب دوڑ پڑے، ان میں جمال بھی تھا، بیچارہ جمال صبح سے دو چار روپیے کمانے کی کوشش میں اس طرح ہر ایک ٹرین کے رکنے پر اتر نے والے مسافروں کی جانب دوڑ پڑتا کہ کو ئی اسے اپنا بوجھا دے دے تو
ڈوپٹہ
میں جیسے ہی اپنے گیٹ کے قریب پہنچی۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک کمسن لڑکی کو بیٹھے ہو ئے پایا۔ میں نے پرس سے چابی نکالی اور گھر کا دروازہ کھولتے ہو ئے ان لوگوں سے پوچھ ہی لیا۔ کون ہیں آپ لوگ اور آپ کو کیا چاہیے، وہ عورت جو اب میں یوں مخاطب ہوئیں۔ بیٹی
الزام
سیما ان آٹھ دنوں میں مجھ سے کافی گھل مل گئی تھی، اس بار چھٹی میں مامی کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے میں شہر گلستان چلی آئی۔ روزانہ شام کو کسی نہ کسی جگہ کی سیر ہو جاتی، دن میں اکثر سیما کی باتوں سے ہی میرا دل بہلتا یہ لڑکی پہلی ہی نظرمیں مجھے بڑی پیاری لگی
چاند سی بہو
مسز خان آج بہت خوش تھیں، کیوں نہ ہوتیں آج ان کی دلی تمنا جو پایہ تکمیل کو پہنچی تھی، ان کے اکلوتے بیٹے ساجد خان کی شادی اتنی حسین و جمیل لڑکی کے ساتھ ہو رہی تھی، جو صرف حسن میں بے مثال ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھی، ڈگری ہولڈر، ہوشیار کامیاب ترین،
اولاد
میں بڑی بےچینی سے نانی ماں کا انتظار کر رہی تھی، وہی نانی جن کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ نہ ہی ان کا اپنا کوئی گھر نہ ہی ان کا کوئی رشتہ دار، وہ چند دن اس شہر کی درگاہ میں رہتیں پھر کچھ دنوں کے لیے دوسرے شہر چلی جاتیں، ہر جگہ کسی نہ کسی درگاہ ہی کو
جیسی کرنی ویسی بھرنی
بہو نے اپنے آ ٹھ سالا منے کو آواز دی، منا دادی ماں کو ناشتہ دے آؤ۔ منا نا شتہ لے کر دادی ماں کے کمرے میں چلا آیا اور دادی ماں کی طرف پلیٹ بڑھا دی۔ جس میں معمول کے مطابق رات کا بچا ہوا کھانا اور اس پر ڈالا ہوا کچھ سالن تھا۔ دادی نے منے کے ہاتھوں سے پلیٹ