aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیار اور جہیز

ذاکرہ شبنم

پیار اور جہیز

ذاکرہ شبنم

MORE BYذاکرہ شبنم

    تمنا خوبصورت ہو نے کے ساتھ ساتھ نہا یت شریف اور نیک سیرت لڑکی تھی۔ وہ شہر میں رہنے کے باوجود بھی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکی۔ صرف میٹرک پا س کیا تھا۔ وہ کالج جانا چاہتی تو جا سکتی تھی لیکن اسے کالج کے ماحول سے ہی ڈر لگتا تھا۔ اس لیے وہ گھر پر ہی اچھی اچھی کتابوں کا مطالعہ کرتی تھی اور ہنر میں بھی وہ کسی سے کم نہ تھی۔ تمنا کے والد عبدالرحمن صاحب ایک فیکٹری میں ملازم تھے۔ ایک چھوٹا بھائی عتیق اس کی والدہ، بس یہ چھوٹی سی فیملی تھی تمنا کی۔

    تمنا کو اپنے والدین سے بھرپور پیار ملا وہ بھی انہیں بہت چاہتی تھی، گھر کا سا را کام وہی کیا کرتی، شام کے وقت اپنے بھائی کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی ٹیو شن پڑھایا کر تی تھی۔ عتیق ابھی چھٹی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔

    تمنا کے ماموں شہر سے قریب ایک گاؤں میں رہتے تھے جن کا انتقال حال ہی میں ہو گیا تھا۔ ماموں کے انتقال کے بعد دونوں گھروں میں کچھ بنتی نہیں تھی۔ عرفان تمنا کے ماموں کا اکلوتا لڑکا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد سارے کاروبار کی ذمہ داری عرفان کے کندھوں پر آ پڑی۔ سارے کاروبار کی دیکھ بھال وہی کیا کرتا تھا اسے اپنے کام سے فرصت بہت کم ملتی تھی پھر بھی وہ اپنی پھوپی کے گھر دو تین مہینوں میں ایک بار ضرور آتا تھا۔ عرفان کی والدہ کو اس کا پھو پی کے گھر جانا بالکل پسند نہیں تھا، اس لیے جب بھی وہ جاتا اپنی امی کو کسی کام کا بہانہ کر کے چلا جاتا تھا۔ تمنا کے والدین عر فان کو بہت چاہتے تھے۔ تمنا بھی اس کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتی۔ وہ جب بھی آتا اس کا پورا پورا خیال رکھتی یہی وجہ تھی جو عرفان اکثر اس کے ہاں آ جایا کر تا تھا بلکہ دل ہی دل میں وہ تمنا سے پیار کر نے لگا تھا۔

    ایک دن تمنا کی یا د اسے بہت ستانے لگی تو اس نے اپنی امی کو کسی کام کا بہانہ بنا کر سیدھے تمنا کے گھر چلا آیا۔ اتفا ق سے اس دن تمنا کے وا لدین گھر پر نہیں تھے۔ اس کا چھوٹا بھائی بھی والدین کے ساتھ گیا ہو اتھا۔ تمنا گھر پر بالکل اکیلی تھی۔ عرفان نے جب تمنا کو گھر پر اکیلی دیکھا تو پو چھا۔

    ”کیوں تمنا گھر پر کیا کوئی بھی نہیں ہے؟“

    ’’تمنا نے جواب دیا، ’’ہاں امی ابو سب تقریب میں گئے ہو ئے ہیں۔“

    تمنا کی بات سن کر عرفان کو موقع مل گیا، حالِ دل سنانے کا اور کہنے لگا،

    ”چلو اچھا ہوا، میں تمہارے امی ابو سے نہیں بلکہ خاص کر تم سے ملنے آیا ہوں۔“

    عرفان کی بات سنتے ہی تمنا شرماکر باورچی خانے میں چلی گئی، تھوڑی ہی دیر بعد چائے لیکر وا پس آئی۔ ”چا ئے لیجئے۔“

    ’’عرفان چائے لینے کی بجائے اس کا نازک سا ہاتھ تھام کر بولا، تمنا! میں آج تم سے اپنے پیار کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ ہاں! تمنا تم نہیں جانتی کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ تمہارا یہ بھولا بھالا چہرہ ہر وقت مجھے بےچین کیے رہتا ہے۔ تمہاری یا د دن رات مجھے تڑپاتی ہے، آج پہلی بار مجھے اپنی محبت کے اظہار کا اتنا حسین موقع ملا ہے۔“

    تمنا یہ سب سننے کے بعد سو چنے لگی۔ اب تک اس نے عرفان کو ایک بھائی کے روپ میں ہی دیکھا تھا آج اسی عرفان نے اپنا دل کھول کر اس کے سا منے رکھ دیا تھا۔ جسے آج تک وہ بھائی سمجھتی رہی۔ وہی آج اسے محبوب کے روپ میں دکھائی دینے لگا۔

    ”کیا سوچ رہی ہو تمنا۔۔۔؟“

    عر فان کی آواز پر وہ چو نک پڑی اور جلدی اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بولی۔

    ”کچھ نہیں چائے لیجئے ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اپنی امی کا بھی کچھ خیال کیجئے۔ ہم جیسے غریبوں کے یہاں رشتہ جوڑنا ان کی شان کے خلاف ہوگا۔“

    تمنا کے منہ سے یہ بات سنتے ہی عرفان اداس ہو گیا اور بولا۔

    ”میں کیا کر سکتا ہوں تمنا۔۔۔؟ امی کے آ گے میری ایک نہیں چلتی میں ان کا اکلوتا لڑکا ہوں نا اسی لیے۔۔۔؟ لیکن میں تمہیں یقین دلا تا ہوں کہ میں اپنے دل میں تمہیں بسا چکا ہوں۔ صرف تم ہی وہ واحد لڑکی ہو جو میر ے دل کی ملکہ بنےگی میں تمہیں کسی بھی طرح حاصل کرکے رہوں گا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔“

    عرفان تمنا سے بہت سارے وعدے کرکے چلا گیا، لیکن تمنا نے کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی مگر اسے عرفان کی باتوں میں ایک امید کی کرن نظر آ رہی تھی۔ عر فان تو اسے سپنوں کی دنیا میں چھوڑ کر چلا گیا اس معصوم کو کیا پتہ تھا کہ محبت کے آگے دو لت ہی سب کچھ ہے وہ ان تمام باتوں سے بے خبر عرفان کی باتوں پر بھروسہ کیے سپنوں کی دنیا میں کھو گئی وہ سمجھتی تھی کہ عرفان اسے ساری دنیا سے لڑکر بھی حاصل کر سکتا ہے۔ جب بھی وہ تمنا کے گھر آتا تمنا سے یہی وعدہ کرتا کہ میں تمہیں اپنا کر ہی رہوں گا لیکن۔۔۔ ایسا نہیں ہوا ایک دن آخر وہی ہوا جو صدیوں سے ہو تا چلا آ رہا ہے۔ دو لت کے ہاتھوں محبت کا خون۔۔۔!

    تمنا کے گھر والوں کو بھی پتہ چلا کہ عرفان کی منگنی اسی کے گاؤں میں اس کی ماں کے رشتہ داروں میں بہت امیر گھرا نے کی لڑ کی سے ہو رہی ہے۔ منگنی کی خبر سنتے ہی تمنا پر تو جیسے بجلی گرپڑی اس پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ جسے وہ اپنا سمجھتی رہی وہی آج کسی امیر لڑ کی سے منگنی کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ عر فان کی دلہن اپنے ساتھ بہت سارا جہیز لا رہی تھی۔ تمنا کے منہ سے بےساختہ یہ شعر نکلا،

    ہمیں خود سے بھی بڑھ کر اعتماد تھا تم پر

    تمہیں اپنا سمجھ کر یہ بھو ل ہوئی ہم سے

    وہ اپنا دکھ سناتی بھی تو کس سے اس معصوم کو اکیلے ہی دکھ سہنا پڑھ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں تڑپتی اور ہر حال میں خوش رہنے کی کو شش کرتی۔

    منگنی کے بعد عرفان پھر ایک دن تمنا کے گھر آیا۔ تمنا سے یہ کہنے کے لیے کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا میں امی سے کچھ بھی نہیں کہہ سکا لیکن تمنا ابھی وقت ہے تم میرے ساتھ بھاگ چلو ہم تھوڑے دن کسی ہوٹل میں رہیں گے پھر شادی کر لیں گے۔ بعد میں ہمیں کوئی کچھ نہیں کہےگا۔ عرفان کے منہ سے ایسی باتیں سن کر تمنا گھبرا گئی وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکی۔]

    ”مجھے تم سے ایسی امید نہیں تھی اور مجھے اپنے والدین کی عزت کا خیال ہے اور میں اپنی خواہشات کی خاطر اپنے وا لدین کو سماج میں ذلیل اور رسوا کرنا نہیں چاہتی۔“ اس سے آگے وہ ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکی۔

    عرفان اچھی طرح جانتا تھا کہ تمنا ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے جو بھاگ جائےگی۔ سب کچھ جانتے ہو ئے بھی وہ نہ جانے کیوں اس معصوم کے جذبات سے کھیل رہا تھا۔ اتنا سب کچھ ہو نے پر بھی وہ تمنا کے گھر آتا اور ہر بار تمنا سے یہی کہتا رہا کہ میں اب بھی تمہیں چاہتا ہوں۔ تقدیر کے آگے کوئی کیا کر سکتا ہے۔ ہمارے نصیب میں جو لکھا ہے وہ ہو کر رہےگا تم بیتی ہو ئی باتوں کو بھول جاؤ خوشی سے اپنی زندگی گزارو۔

    تمنا عرفان کی باتوں کو چپ چاپ سنتی اور کچھ نہ کہتی پہلے بھی تو اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔ عرفان ہی اسے جھوٹے سپنوں کی دنیا میں لے گیا تھا۔ تمنا اکثر سو چا کرتی کہ عرفان میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی والدہ سے اپنی پسند کا اظہار کرتا۔ مرد ہوکر بھی وہ تقدیر کو ہی دوش دیتا ہے۔ تدبیر سے بھی تو اپنی تقدیر سنوار سکتا تھا۔

    ”اس دنیا میں ہر مرد تقدیر پر ہی بھرو سہ کر نے لگےگا تو انسان کی خواہشوں کا کیا ہوگا؟ کیا میری طرح ہر ایک کی تمنائیں سینوں میں گھٹ کر رہ جائیں گی؟ نہیں! اس نے عزم کیا کہ جلد ہی وہ اس خیال کو اپنے دماغ سے نکال دےگی۔ ہر مر د ایک جیسا نہیں ہوتا، عرفان سچ مچ اگر مجھ سے پیار کر تا تو مجھے وہ کسی بھی طر ح اپنا کر رہتا۔ دو لت کے آگے میری پاک محبت کو اس طرح ٹھکرا نہیں دیتا۔ وہ تو دو لت کا پجاری ہے اور دولت سے پیار کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔‘‘

    ”آخر تمنا نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ عورت ہے تو کیا ہوا۔ حالات کا سامنا کر نے کی ہمت تو اس میں بھی ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ جہیز کے لالچی انسان سے کسی بھی قیمت پر شادی نہیں کریگی۔ ایسے انسان کو اپنا ہم سفر بنائےگی جو صرف اس سے شادی کر نا چاہتا ہو۔ جہیز جیسی لعنت سے نہیں۔“

    اس کے بعد اس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر عرفان کو اپنا بھائی تسلیم کر لیا۔ وہ بھول کر بھی بیتے دنوں کو یاد کر نا نہیں چاہتی تھی۔ عر فان کی شادی کا دن بھی آ گیا تمنا کے گھر والوں کو بھی بلا یا گیا۔ تمنا بھی ایک بہن کی حیثیت سے عر فان کی خوشی میں برابر کی شامل رہی۔

    وہ تو پہلے ہی حالات کا سامنا کر نے کا فیصلہ کر چکی تھی، دن ہفتوں میں مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ عرفان کی شادی کو ہوئے پورے دو سال گزر گئے اب عر فان کبھی کبھار تمنا کے گھر آتا تھا۔

    اس بیچ تمنا کے کئی رشتے آئے جو بھی آتا جہیز کی ایک لمبی فہرست اپنے ساتھ لاتا۔ تمنا کے والد عبدالرحمن صاحب تو اپنی اکلو تی بیٹی کے لیے بہت کچھ جمع کیے ہو ئے تھے۔ وہ جلد سے جلد اس فرض سے سبکدوش ہو نا چاہتے تھے لیکن ہر بار تمنا کے انکار سے وہ خاموش ہو جاتے تھے۔

    عرفان نے تمنا کی محبت کو ٹھکراکر اس کے دل کو بہت بڑا صدمہ پہنچایا تھا۔ اس کے دل کا زخم ابھی تاز ہ تھا اسے دو لت کے پجاریوں سے سخت نفرت ہو گئی تھی۔ تمنا اپنے دل میں ایسے جیون ساتھی کی خواہش لیے ہو ئے تھی، جو اسے ٹوٹ کر چاہے۔ اس کے دُکھ سکھ میں برابر کا شریک رہے۔

    آج جب وہ لان میں بیٹھی ٹیو شن پڑھا رہی تھی۔ شام کا وقت تھا، موسم بڑا خوش گوار تھا۔ تمنا گلابی رنگ کے سوٹ میں ملبوس گلاب کے پھول کے مانند حسین لگ رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کی سیاہ ریشمی زلفوں سے آنکھ مچو لی کھیل رہے تھے۔ تبھی اچانک تمناکے بچپن کی سہیلی فرح اسے پکارتے ہوئے آ پہنچی تمنا اپنی سہیلی کو اتنے دنوں بعد اچانک دیکھ کر دنگ رہ گئی۔

    فرح کے ساتھ اس کے والدین اور اس کا بڑا بھائی عادل بھی آ ئے تھے۔ پانچ سال پہلے تمنا اور فرح ایک ہی پڑوس میں رہتے تھے اور ایک ہی ساتھ پڑھتے رہے فرح کے والد کا تبادلہ کسی دوسرے شہر میں ہو جانے سے انہیں یہ شہر چھوڑ کر جانا پڑا۔ اب پھر ایک بار اسی شہر میں رہنے کے لیے آ گئے تھے۔ دونوں گھروں میں بہت دنوں بعد ملا قات ہو ئی تھی سب ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش تھے۔ تمنا اور فرح گھل مل کر باتیں کر رہی تھیں۔ تمنا اور فرح کے والدین آپس میں باتیں کر رہے تھے۔

    عادل دونوں کی گفتگو خاموشی سے سن رہا تھا۔ باتوں باتوں میں فرح کے والد تمنا کے والد سے پو چھ بیٹھے۔

    ”کیوں بھائی! تمنا بیٹی کی شادی کب کر رہے ہو، کہیں رشتہ طے ہوا کیا؟“

    ’’تمنا کے والد کہنے لگے، ”کیا بتاؤں بھائی صاحب یہ لڑکی مانے تب نا۔ کہتی ہے میں جہیز کے بھکاریوں سے شادی نہیں کروں گی۔ اب آپ ہی بتایئے بھلا اس زمانے میں جہیز کے بغیر لڑکی سے بیاہ کون کرتا ہے۔۔۔؟ درمیان میں ہی فرح کے والد بولنے لگے۔‘‘

    ”بہت اچھے خیالات ہیں تمنا بیٹی کے آج جہیز جیسی لعنت کو مٹانے کے لیے نوجوان لڑ کے اور لڑکیوں کو ہی آ گے بڑھنا چاہیے۔“

    ’’عادل دونوں کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا کبھی کبھی آنکھ بچا کر ایک نظر تمنا کو بھی دیکھ لیتا جو فرح کے ساتھ محو گفتگو تھی۔ تمنا کو وہ بچپن سے جانتا تھا۔ اس طرح وہ خیالوں کی وادیوں میں بھٹکنے لگا، کتنے نیک خیالات ہیں تمنا کے وہ دل ہی دل میں سو چنے لگا، ’’مجھے بھی تو ایسی ہی لڑکی کی تلا ش تھی۔ میں بھی تو جہیز کے سخت خلاف ہوں ہم دونوں کے خیالات میں کتنی یکسانیت ہے۔“

    عادل کو اپنا ہمسفر اپنی نظروں کے سامنے دکھائی دینے لگا وہ سو چتا رہا کہ تمنا ہی میری شریک حیات بن سکتی ہے۔۔۔

    ”چلو بھئی نو بج رہے ہیں۔ باتوں میں ہی رات گذار نے کا ارادہ ہے کیا؟“ اپنے ابا کی آواز پر وہ خیالوں کی دنیا سے لوٹ آیا سبھی نے رات کا کھانا کھا کر تمنا کے گھر سے رخصتی لی۔

    آج رات عادل کی آنکھوں سے نیند کو سوں دور تھی جب بھی وہ نیند کی آغوش میں جانا چاہتا تمنا کا معصوم چہرہ اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا۔ جیسے تیسے کر کے رات کٹی صبح اس کی آنکھیں سو جی ہوئی تھیں صبح ہی اس نے اپنی بہن فرح سے اپنی خواہش کا اظہار کیا فرح اپنے بھائی کی بات سنتے ہی خوشی سے اچھل پڑی اور چھیڑ تے ہو ئے اپنے بھیا سے کہنے لگی۔

    بھیا۔۔۔! یہی وجہ ہے جو آپ کی آنکھیں سو جی ہوئی ہیں، اس کا مطلب ہے آپ رات بھر سو نہیں سکے سچ بھیا آپ کی پسند کی داد دینی چاہیے میں بھی یہی چاہتی تھی، تمنا کو اپنی بھا بی بناؤں، تمنا جیسی لڑکی آپ کو چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملےگی۔۔۔ پھر وہ دوڑ تی ہوئی اپنے والدین سے کہنے چلی گئی۔ انہیں بھی اپنے بیٹے کی پسند پر خوشی ہوئی۔

    چند دنوں بعد عادل کے والدین رشتہ لیکر تمنا کے گھر پہنچ گئے۔ عادل کے والد تمنا کے وا لدسے کہنے لگے، ”بھئی ہمارے بیٹے کو تمنا بیٹی پسند آ گئی ہے۔ اور وہ صرف تمنا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ جہیز سے نہیں سبھی اس بات پر ہنس دیئے تمنا کے والدین نے بھی فوراً رشتہ منظو ر کر لیا، اس میں ان کی بیٹی بھی خوش تھی پہلے ہی سے دونوں گھروں میں محبت تھی اور اب رشتہ دار بن رہے تھے سبھی بہت خوش تھے۔ سب سے زیادہ خوشی تو فرح کو ہو رہی تھی جلد ہی شادی کا دن بھی آ گیا۔‘‘

    آج تمنا کی شادی بڑی ہی سادگی سے ہو رہی تھی شادی میں فضول خرچی سے پرہیز کیا گیا۔ لڑکے والوں کی طرف سے کسی قسم کی مانگ نہ تھی، نہ لڑے والے ٹی وی اور فریج کا مطالبہ کر رہے تھے اور نہ لڑکا اپنے لیے اسکوٹر کار ما نگ رہا تھا۔ ان کے پا س تو اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا پھر وہ کیوں لڑکی والوں کے آگے ہا تھ پھیلاتے۔

    تمنا سرخ جوڑے میں ملبوس اپنی سہیلیوں کے بیچ بیٹھی اپنی قسمت پر رشک کر رہی تھی وہ سو چ رہی تھی کہ کاش دنیا کا ہر مرد عادل جیسا ہی ہو جو اپنی تقدیر کو تدبیر سے سنوارنے کی ہمت اپنے اندر رکھتا ہو۔ اس نے عادل کو بچپن سے دیکھا تھا۔ وہ نہا یت شریف اور بااخلاق لڑکا تھا۔ اسی لیے وہ بغیر جہیز کے تمنا سے شادی کر رہا تھا، آج کا دن تمنا کی زندگی میں بہت خوشی کا دن تھا۔ آج اسے اپنا آئیڈیل شوہر مل گیا تھا اور وہ دل ہی دل میں خدا کا شکریہ ادا کر نے لگی۔

    شادی میں عر فان بھی آیا ہوا تھا۔ جب اس نے تمنا کو دلہن کے روپ میں دیکھا تو بہت پشیمان ہوا۔ اس کا اپنا ضمیر ہی اسے ملا مت کر نے لگا۔

    ”عرفان تم نے تمنا کی محبت کو ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا۔ تم انسان نہیں انسان کے بھیس میں بھیڑیے ہو۔ دو لت کے بھو کے بھیڑیے جدھر بھی دو لت نظر آ ئی ادھر ٹوٹ پڑتے ہو۔ ہاں ایسی لڑکی تمہاری قسمت میں کہاں اسے پانے کے لیے تو عادل جیسے خوش قسمت جنم لیتے ہیں۔“

    آج عرفان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔ اسے تمنا سے کی ہوئی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی، لیکن اب پشیمان ہو نے سے کیا فائدہ۔۔۔

    تمنا کی اس سادگی سے انجام پائی ہو ئی شادی، سارے شہر میں مثالی اور یادگار ثابت ہوئی۔

    عادل تمنا جیسی خوبصورت اور نیک سیرت شریک حیات کو پاکر بہت خوش تھا اور وہ اسے بے انتہا چاہتا تھا۔

    تمنا عادل کے بےپناہ پیار کو پاکر اپنے ماضی کے کربناک زخموں کو بھول گئی اور اب عادل کے ساتھ اس کے دن ہنسی خوشی سے گزر نے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے