زائشہ عثمان کے اشعار
کیسا یہ مرحلہ ہے کہ اک دوسرے سے ہم
کہنے کو آشنا ہیں مگر آشنا نہیں
ہر بات دل کی لب پہ نہیں لانا لازمی
کچھ گفتگو میں بھی ادب آداب چاہیے
کہاں تک ہم نباہیں زندگی تیرے مصائب سے
کہاں تک زیب دیتا ہے کسی کا با وفا ہونا
بجھنے نہیں دیا اسے فرقت کے بعد بھی
یادوں سے تیری دل کو فروزاں رکھا سدا
ناتواں شخص ہی پاتا ہے سزائیں اکثر
گو خطا وار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا
تو نے سینے سے جنہیں آج لگا رکھا ہے
دل سے وہ لوگ ہی جائیں نہ اتر کس کو خبر
اے شخص تجھ سے ترک تعلق کا غم نہیں
غم یہ ہے میں نے خود کو ترے ساتھ کھو دیا
لوگ آئیں گے بہت چھوڑ کے جائیں گے بہت
ہر کسی کو نہ کلیجے سے لگا کر رکھیے
ہم کہ رکھتے ہیں آسماں کی طلب
اور اڑنے کا حوصلہ بھی نہیں
یہ الگ بات مجھے لوٹ کے آنا ہے یہیں
تیرگی مجھ کو مگر پھر بھی رہائی دے دے