آرزو حسن کا شہکار بھی ہو جاتی ہے
آرزو حسن کا شہکار بھی ہو جاتی ہے
اور کبھی نقش بہ دیوار بھی ہو جاتی ہے
ہم تو لب سی لیں مگر اس کا مداوا کیا ہے
خامشی خود لب گفتار بھی ہو جاتی ہے
ریگزاروں کی کڑی دھوپ مسافر کے لیے
عشرت سایۂ دیوار بھی ہو جاتی ہے
گلشن عیش سے ہشیار کہ شاخ نسریں
کبھی چلتی ہوئی تلوار بھی ہو جاتی ہے
لوریاں دے کے خیالوں کو سلانے والو
زندگی خواب سے بیدار بھی ہو جاتی ہے
موت ویرانیٔ احساس کے سناٹے میں
کبھی پازیب کی جھنکار بھی ہو جاتی ہے
زندگی کو ہدف جبر بنانے والو
زندگی برسر پیکار بھی ہو جاتی ہے
شمع امید کے بجھنے سے نہ گھبراؤ سراجؔ
تیرگی باعث انوار بھی ہو جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.