اب تو یوں خواب کے رستوں پہ قدم رکھتا ہوں
اب تو یوں خواب کے رستوں پہ قدم رکھتا ہوں
جس طرح اپنی ہی آنکھوں پہ قدم رکھتا ہوں
دیکھتا ہوں تو دہکتے ہوئے انگارے ہیں
اور چلتا ہوں تو پھولوں پہ قدم رکھتا ہوں
نشہ ایسا ہے کہ ہے لغزش پا آنکھوں میں
لڑکھڑاتا ہوں تو شیشوں پہ قدم رکھتا ہوں
اندر اندر ہی کوئی راہ نکلتی ہوئی ہے
یہ جو میں اپنے ہی قدموں پہ قدم رکھتا ہوں
تھرتھرا اٹھتی ہے پانی کی طرح دل کی زمیں
یاد کے ڈولتے رسوں پہ قدم رکھتا ہوں
دل میں چلتی ہے کسی گزرے زمانے کی ہوا
راکھ ہوتی ہوئی یادوں پہ قدم رکھتا ہوں
مجھ میں رہ رہ کے ابھرتی ہے چٹخنے کی صدا
جیسے ٹوٹی ہوئی قبروں پہ قدم رکھتا ہوں
ہاتھ آئے بھی تو کیا کار کشائی کا سرا
میں کہ خود اپنے ارادوں پہ قدم رکھتا ہوں
قافیہ تنگ کیے رہتا ہوں دن رات اپنا
کس قدر سخت زمینوں پہ قدم رکھتا ہوں
- کتاب : محبت جب نہیں ہوگی (Pg. 107)
- Author : آفتاب حسین
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.