اگنی کنڈل میں ہاتھ ڈالا ہے
اگنی کنڈل میں ہاتھ ڈالا ہے
کیوں مری آسنی پہ بیٹھا ہے
چاند خستہ پلنگ کے اوپر
ٹانگیں لٹکائے گنگناتا ہے
دل وہ خاشاک کی ہے چھت جس میں
کچھ ابابیلوں کا بسیرا ہے
اے مرے پہلے عشق کے بالک
کیا یہ سچ ہے کہ تو کنوارا ہے
تو کبوتر ہے یا کوئی مکتوب
میری امراؤ جان ادا کا ہے
جن کو تو شاخ سے اڑاتی تھی
ان پرندوں نے زہر کھایا ہے
یہی آثار ہیں قیامت کے
عشق کو وارثوں نے مارا ہے
ایک کالے کٹھور بادل نے
کیوں دھنک کا سہاگ لوٹا ہے
آدمی کے اڑاتا ہے پرزے
عشق بارود کا دھماکا ہے
کائنات اک کتاب ہے جس میں
میرے مضمون کا خلاصہ ہے
رات کچھ دیر ہوش آیا تو
میرؔ صاحب نے پہلو بدلا ہے
سرخ ڈورا ہے آنکھ میں جیسے
گل مہر پر چراغ جلتا ہے
تو نے یادوں کی منجنیقوں سے
دل کی بستی کو گھیر رکھا ہے
کر کے پیدا سخن نے دشمن ہائے
کس مصیبت میں مجھ کو ڈالا ہے
سبز ہونے لگی ہے وہ کھائی
جس میں تو نے مجھے دھکیلا ہے
جانے کن خواب ناک جھیلوں سے
سارسوں نے مجھے پکارا ہے
کیوں رکھا ہے لپیٹ کے سینہ
کچھ بتا اس سمور میں کیا ہے
ہم سے پوچھو فراق کے صدمے
ہم نے تنہائیوں کو بھوگا ہے
چاندنی کے اداس جنگل سے
آج کوئی گزرنے والا ہے
چاند جب ڈوبنے لگا ہے شفقؔ
دور افق پر غبار چمکا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.