حضور میری بساط کیا ہے کہ نعت لکھوں
میں آپ کا اک بہت گنہ گار امتی ہوں
مری زباں پر کثافتیں ہیں
دماغ و دل میں غلاظتیں ہیں
حضور میری بساط کیا ہے کہ نعت لکھوں
مگر نہیں میں بہت ہی عالی حسب نسب ہوں
کہ آپ ہی کا غلام ابن غلام ابن غلام ہوں میں
بھلا بتائیں کہ میرے آگے تمام شاہان ازمنہ کی بساط کیا ہے
حضور یہ اقتدار زادے ہوس کے بندے
میں ان کے شجرے سے باخبر ہوں کہ خواہشوں کے غلام ابن غلام ابن غلام ہیں یہ
حضور میں ان غلام زادوں کے تخت و تاج اور سلطنت کے سبھی طلسمات جانتا ہوں
میں ان کی اوقات جانتا ہوں
تمام فرعونیت کے قلعوں کی اور فصیلوں کی اصل بنیاد ابن آدم کے خون اور ہڈیوں سے تعمیر کی گئی ہے
مگر حضور آپ کی حکومت تمام شاہوں سے مختلف ہے
کہ آپ کے پاس ایک چادر ہے ایک تہ بند اک عمامہ
کھجور کی چھال اور پتوں کا ایک بستر
سو اے زمانے کے بادشاہو
لو تم بھی دیکھو یہ شاہ کونین کا اثاثہ
میں اس زمانے کے سارے نمرود اور شداد اور قارون اور ہامان اور فرعون کو دکھا دوں
کہ میرے آقا کی سلطنت میں کوئی نہیں ہے جو بھوک سے بلبلا رہا ہو
حضور کی مملکت میں دولت کا ایک حصہ غریب لوگوں کی ملکیت ہے
سنو رفیقان اشتراکی
تمام جبر معاش کا بس یہی نظام زکوٰۃ حل ہے
دلت کی محرومیوں پہ آنسو بہانے والو
سنو یہ تاریخ کہہ رہی ہے
بلال جیسے غلام جن کو مہا دلت سے بھی پست سمجھا گیا عرب میں
رسول رحمت نے ایسے محروم آدمی کو بھی ایسا درجہ عطا کیا ہے
خلیفۂ وقت کا بھی آقا بنا دیا ہے
سنو اے تانیثیت کے نعرے لگانے والو
رسول انسانیت نے مظلوم عورتوں کو حیات بخشی
رسوم وحشت کے خونی پنجوں سے ان کو راہ نجات بخشی
تمام عزت وقار کی کائنات بخشی
حضور کیا ہے بساط میری کہ نعت لکھوں
مگر میں دنیا کے ہٹلروں کی سماعتوں کو جگا رہا ہوں
تمام دہشت پسند لوگوں کو آج میں یہ سنا رہا ہوں
تمام انسانیت کے قاتل گروہوں کو یہ بتا رہا ہوں
رسول رحمت کی زندگی کا یہ باب روشن دکھا رہا ہوں
میں آج طائف حدیبیہ اور فتح مکہ کی یاد ان کو دلا رہا ہوں
حضور میری بساط کیا ہے کہ نعت لکھوں
مگر مری ایک آرزو ہے کہ اپنے خون جگر سے اوراق زندگی پر بس آپ ہی کی صفات لکھوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.