میں زمانے سے خفا عورت ہوں
اس نے ہمیشہ تاریخ میں مردوں کو
ہم پر فضیلت دی
میری آنکھوں میں ایسی چنگاریاں
جن سے میں ہر نظر آنے والی شے کو آگ لگا سکتی ہوں
میں وہ عورت ہوں
جس کی مانگ میں دکھ کا سندور لگا ہے
جس کی لوریاں
نوحہ اور ہنسی رجز ہے
جس کے دوپٹے پر گھٹیا جملے چپکے ہیں
مردوں نے صرف جنگیں لڑنا اور مرنا سیکھا
مجھے بنایا گیا
ان پر رونے کے لیے
میں نے محبت کی بے نشاں قبروں پر
خاموشی میں لپٹی دعائیں مانگیں
تمناؤں کے آتش دان کو
اپنی ہی سانسوں سے بجھایا
اور ہر دن ایک یاد کے درخت کو آنسو دان کیے
ایک چہرے کی مسکان دیکھنے کے لیے
خود کو آئینہ بنائے رکھا
اور محبت کے دریا میں خاک اڑتی دیکھی
میں ناراض ہوں
میرے اندر ایک بپھرا ہوا سمندر ہے
جس کی لہریں پہاڑوں کے سروں سے گزر جائیں گی
جس کے ہر قطرے میں بغاوت کی آگ ہے
یہ دنیا مجھے سوائے اداسی کے کچھ نہ دے سکی
اس فطرت سے جو مرد کی میراث بنی
اس زندگی سے جس کی کوکھ بے معانی ہے
اور اس خدا سے
جو صرف خاموش عورتوں کا خدا ہے
کیا میرا خدا بھی مرد تھا
میں ناراض ہوں
ہر اس زبان سے
جو مجھے چپ رہنے کا مشورہ دے
ہر اس کتاب سے
جس میں میرے لیے سبق ہیں
خواب نہیں
ہر اس ہاتھ سے
جو میرے حصے کی زمین چھین لے
ہر اس رواج سے
جو میری سانسوں پر زنجیر ڈال دے
اور ان سب سے بڑھ کر
میں ناراض ہوں
تم سے اور خود اپنے آپ سے
تم یہ مت پوچھنا کہ کیوں
سنو
عورت کی ناراضگی سے ڈرو
کہ یہ قہر کی صدا ہے
مگر اس عورت کی ناراضگی سے پناہ مانگو
جو ذہین اور دلیر ہے
اس سے مت الجھو
کہ تمہارا اپنا وجود
خود اس کے حق میں گواہی دے گا
کہ یہ وہ آئینہ ہے
جس میں تمہیں اپنی وحشت
اور اپنا کھوکھلا وقار برہنہ دکھائی دے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.