Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنگل نہ سہی

عطاء الرحمٰن طارق

جنگل نہ سہی

عطاء الرحمٰن طارق

MORE BYعطاء الرحمٰن طارق

    سویرے ایسا لگا

    جیسے کوئی دروازے پر دستک دے رہا ہے

    اٹھ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا

    کھٹ کھٹ کی آواز پر دھیان دیا

    تو کھڑکی کے پٹ پر بیٹھا نظر آیا ایک پرندہ

    چونچ سے بنا رہا تھا نقش و نگار

    کیوں بھئی میں نے پوچھا تو کہنے لگا

    کرائے پر چاہئے ایک ٹہنی جس پر بنا سکوں اپنا گھونسلہ

    اپنی تو جیسے تیسے کٹ ہی جائے گی

    لیکن بال بچوں کا کیا ہوگا

    آپ کے بھائی بندوں نے کاٹ ڈالے جنگل

    اور دے دیا دیس نکالا

    ثواب کی نیت سے بھلے آدمی دالان میں رکھ دیتے ہیں پانی کی کٹوری اور دانہ

    پیٹ کی آگ بجھانے کو تھوڑا سا کھا پی لیتے ہیں

    چھت بھلے نہ ہو کھانا تو چاہئے ہی

    کبھی لگتا ہے بجلی کے تار چھو کر خودکشی کر لوں

    یا اونچے موبائل ٹاوروں سے ٹکرا کر جان دے دوں

    جیسے کسانوں کو خود کشی کے بعد سرکار کچھ امداد دے دیتی ہے

    شاید کوئی گوشہ ہمیں بھی الاٹ کر دے بچوں کے لیے

    یہ سن کر میں تو چکرا گیا

    اس طرف تو سچ مچ میں نے کوئی دھیان نہیں دیا تھا

    جنگلوں کو کاٹتے سمے کس نے سوچا ہوگا کہ

    یہ بے زبان کہاں جائیں گے

    میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا

    ان ظالموں کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں

    خدا کے واسطے خود کشی کا خیال دل میں نہ لانا

    جب تک جی چاہے میری کنڈی میں لگے ون روم کچن ہی میں گزارہ کر لو

    کچھ تنگی سہی لیکن انتظام ہو جائے گا

    اس نے کہا

    مہربانی مگر میں کرایہ ادا کرنے کا اہل نہیں

    میں نے کہا صبح شام اپنی میٹھی بولی سنا دیا کرنا بس

    مجھے اور کچھ نہیں چاہیے

    اس نے کہا

    میرے دھنیہ بھاگ کہ آپ جیسے ہمدرد انسان سے ملاقات ہو گئی

    لیکن ہر کوئی تو آپ جیسا نہیں

    اور پھر میرے باقی ہم جنسوں کا کیا ہوگا

    میں نے کہا

    انہیں بھی کہیں نہ کہیں سر چھپانے کو جگہ مل جائے گی

    مگر خدارا تم خود کشی کا ارادہ ترک کر دو

    ہم جھاڑ لگائیں گے اور ان کی حفاظت بھی کریں گے

    یہ سنتے ہی وہ خوشی خوشی تنکے جمع کرنے میں مگن ہو گیا

    اور

    میں گھر میں آپ کو یہ سارا ماجرا سنانے چلا آیا

    اس ننھے سے پرندے کی کھٹ کھٹ نے گویا میرے دل و دماغ کے

    دروازے کھول دئے

    یہ سن کر یا پڑھ کر آپ بھی اپنے آنگن میں ایک جھاڑ تو

    لگائیں گے نا

    یا کنڈی میں ایک بیج تو بوئیں گے نا

    کم از کم ایک بیج

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے