یادیں
جب بھی بچھڑی ہوئی دلی کا سماں یاد آیا
بھولی بسری ہوئی یادوں کا جہاں یاد آیا
اپنے آغاز جوانی کا سماں یاد آیا
کوچۂ رود گراں لال کنواں یاد آیا
اسی پھاٹک میں تو گزرا تھا لڑکپن اپنا
ایک اک طفل تو ایک ایک جواں یاد آیا
چاچا کلن کی مٹھائی کی دوکاں یاد آئی
اس کے اوپر کسی مہوش کا مکاں یاد آیا
ہائے وہ نقرئی آواز وہ تیکھے خد و خال
پس چلمن وہ نظاروں کا جہاں یاد آیا
کیا نہ یاد آیا غریب الوطنی میں ہم کو
ایک اک وہم تو ایک ایک گماں یاد آیا
آئی ہمدرد دوا خانے کی جب یاد ہمیں
ایک تابندہ و پائندہ جہاں یاد آیا
الجمعیۃ کے قریں ہو کے تصور جو چلا
حفظ رحمان سا اک مرد جہاں یاد آیا
جس کی تقریر رگ و پے میں اتر جاتی تھی
سب سے تھا جس کا جدا طرز بیاں یاد آیا
کالے صاحب کا احاطہ بھی نظر میں گھوما
محفل شعر و سخن کا بھی سماں یاد آیا
بلیماران سے پہلے گلی قاسم جاں میں
غالبؔ خستہ کا بوسیدہ مکاں یاد آیا
وہیں یاد آیا دوا خانۂ ہندوستانی
خان اجمل سا مسیحائے زماں یاد آیا
کوچۂ داغؔ سے ہو کر جو چلا حسن خیال
شاعر اہل نظر اہل زباں یاد آیا
چاندنی چوک کی یاد آئی جو گہما گہمی
وہ حسیں شام کا پرکیف سماں یاد آیا
کالے برقعوں میں وہ ملبوس حسیناؤں کے غول
چاند کے ٹکڑوں کا اک سیل رواں یاد آیا
گھنٹہ گھر لوگ سمجھتے تھے جسے دلی کی ناک
پوری دلی کا وہ تنہا نگراں یاد آیا
ہو کے فوارے سے جا پہنچا دریبے میں خیال
سونے چاندی کی دکانوں کا جہاں یاد آیا
جامع مسجد نظر آئی تو ادھر کو لپکے
خوانچہ والوں کا انداز بیاں یاد آیا
سیڑھیوں پر وہ کٹوروں کی صدا گونج اٹھی
پیچ کھاتا ہوا حقے کا دھواں یاد آیا
جامع مسجد کے مناروں سے جسے دیکھا تھا
وہ نظارہ کہ جو تھا راحت جاں یاد آیا
کابکوں جیسے مکانات نظر میں گھومے
ایک اک فٹ کا ہر اک پیر و جواں یاد آیا
اک اچٹتی سی نظر لال قلعہ پر بھی پڑی
دل پہ دھچکا سا لگا شاہ جہاں یاد آیا
اردو بازار کی یاد آئی اس انداز کے ساتھ
کہ صحافت کا کوئی بحر رواں یاد آیا
آ گئے یاد وہیں سائلؔ و بیخودؔ کیفیؔ
داغؔ والوں کا پھر انداز بیاں یاد آیا
میر مشتاقؔ کی مردانہ روی یاد آئی
خدمت خلق کا اک عزم جواں یاد آیا
یاد آئی وہیں مولانا سمیع اللہ کی
جیسے با ہمت و پامرد جواں یاد آیا
شاعروں کی جہاں رہتی تھی نشست و برخاست
جگرؔ خستہ کو دیکھا تھا کہاں یاد آیا
بسملؔ و بیدیؔ و محرومؔ و وفاؔ و گلزارؔ
مجمع شاعر و صاحب نظراں یاد آیا
چاوڑی پھر گئی آنکھوں میں جوانی کی طرح
کوچہ ہائے صنم سیم تناں یاد آیا
یک بیک سین جو بدلا تو سماں یاد آیا
دہشت و خوف کا ایک سیل رواں یاد آیا
خاک اڑنے لگی دلی کے گلی کوچوں میں
متفکر سا ہر اک پیر و جواں یاد آیا
چھوڑ کر دلی کو جانے لگے دلی والے
اک ہجوم بہ لب آہ و فغاں یاد آیا
پاؤں تک جن کا نہ دیکھا تھا کھلے سر دیکھا
نوحہ گر قافلۂ لالہ رخاں یاد آیا
قافلے دلی سے جانے لگے بن بن کے جہاں
مقبرے کا وہ ہمایوں کے سماں یاد آیا
تھا قیامت کا وہ منظر کہ تھی نفسی نفسی
حال پر اپنے فلک گریہ کناں یاد آیا
یعنی برسات یہ کہتی تھی کہ برسوں برسوں
کتنا اس دور میں اللہ میاں یاد آیا
اور اک پردہ اٹھا اور سماں یاد آیا
اور اک منظر دل دوز وہاں یاد آیا
غدر کی کھنچ گئی آنکھوں میں مکمل تصویر
ظفرؔ سوختہ تن سوختہ جاں یاد آیا
شاہزادوں کے جو سر پیش ظفرؔ یاد آئے
اپنا غم بھول گئے جب وہ سماں یاد آیا
تیرے خورشید ترے چاند ستارے دلی
چھوٹ کر تجھ سے مہاجر ہیں بچارے دلی
بے وطن ہو کے ترے راج دلارے دلی
جی رہے ہیں تری یادوں کے سہارے دلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.