aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ ",SoSe"
دیویندر کے۔سونی
ناشر
دل میں اب سوز انتظار نہیںشمع امید بجھ گئی ہو کیا
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دوکبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوںیہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئیہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سوتے میں ہماریآنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
ربیندرناتھ ٹیگور پر کہی گئی چند بہترین اردو نظمیں
زمانے بیت گئے مگر محمد رفیع آج بھی اپنی آواز کی ساحری کے زور پر ہرکسی کے دل پر اپنی حکومت جمائے ہوئے ہیں ، ان کے گائے ہوئے بھجن ، اورنغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آج ہم آپ کے لئے کچھ مشہورو معروف شاعروں کی ایسی غزلیں لے کر حاضر ہوئے ہیں جنہیں محمد رفیع نے اپنی آواز دی ہے اور ان غزلوں کے حسن میں لہجے اور آواز کا ایسا جادو پھونکا ہے کہ آدمی سنتا رہے اور سر دھنتا رہے ۔
سونے چاندی کے بت
خواجہ احمد عباس
مضامین
سونے کی کلہاڑی
کشور ناہید
افسانہ
سوز وطن
پریم چند
سوز میر
میر تقی میر
انتخاب
سونے کا محل
مائل خیرآبادی
سونے کا سنسار
کرشن چندر
ناول
سم اسپکٹس آف اسلامک ترکش کلچر
اکمل ایوبی
تہذیبی وثقافتی تاریخ
سوز ازل
سید افتخار حیدر
سوز اقبال
منور لکھنوی
ترجمہ
میلہ رام وفاؔ
نظم
سوئے حجاز
حیدر قریشی
سفر نامہ
کنولؔ ڈبائیوی
سوز دل
غزل
سوز نغمہ
اسحاق ناشاد
سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان ماضی
مہاتما ستیہ دھاری جی
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنےکوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
ہم کو اور تو کچھ نہیں سوجھا البتہ اس کے دل میںسوز رقابت پیدا کر کے اس کی نیند اڑائی ہے
کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والےرات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دوآئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیاجا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیلؔسونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں
کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلاراکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی
اگر سونے کے پنجڑے میں بھی رہتا ہے تو قیدی ہےپرندہ تو وہی ہوتا ہے جو آزاد رہتا ہے
گر بکا اس شور سے شب کو ہے توروویں گے سونے کو ہم سایے بہت
اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے مرے زانو پراپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books