aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "اپائے"
محفل روجانی ملی بہائیان ریاست ہائے متحدہ امریکہ کینیڈا
مدیر
سید عطائے وارث وارثی
مصنف
اتحادیہ انجمن ہائے اسلامی، ہند
ناشر
بولا بی بی اس بلی کا کچھ تو کریں اپائےدودھ نہ چھوڑے گوشت نہ چھوڑے ہیں بڈھا لاچار
روشنی چنتا کی تو ذہن سے اب بجھ نہیں سکتیخودکشی ایک اندھیرا ہے، اپائے تو نہیں
سکھو نے زور سے ہانک لگائی، ’’کہاں گئے تم کرشن مراری، میر دکھ ہرو۔‘‘گنگا جلی بیٹھ گئی اور آہستہ سے بولی، ’’بھجن گاتے تو تین دن ہوگئے،گھر بار بچانے کی بھی کوئی اپائے سوچی کہ یہ سب مٹی میں ملادو گے۔کیا ہم لوگوں کو پیڑتلے رکھو گے۔‘‘
کچھ دیر بعد کہنے لگا کہ چنتا نہ کرو۔ بچار کرکے کل تک کوئی اور اپائے نکالوں گا۔ دوسرے دن اس نے اپنا بچن پورا کیا اور حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گر بتائے۔ پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگیا کرلو کہ امتحان تک برہمچریہ کا پالن کروگے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلہ بول دیں تو تین دفعہ ’’اوم! شانتی! شانتی! شانتی!‘‘ کہنا۔ اس سے بیاکل سا گر...
منوجی یہ دیکھ ہکا بکا رہ گئے، بولے کہ اری تو نرالی مچھلی ہے کہ پھیلتی ہی جا رہی ہے، جینے کا نیَم یہ ہے کہ جتنی چادر دیکھے اتنے پاؤں پھیلائے، پر تیرے لچھن یہ ہیں کہ جتنا جل دیکھتی ہے اس سے زیادہ پھیل جاتی ہے۔ اچھا اب تیرا اپائے یہی ہے کہ میں تجھے ساگر کے بھینٹ کردوں، یہ کہہ کے انھوں نے مچھلی کو گنگا کی گود سے لیا اور کندھے پہ لاد چلے ساگر کی اور۔ساگر کی اور جاتے ہوئے منوجی کو دھیان کی لہر بہاکے بیتے سمے میں لے کر گئی جب وشنو جی بونے کے روپ میں پرکٹ ہوئے تھے، انھوں نے اس دشٹ راجہ سے تین ڈگ دھرتی مانگی تھی، اس مورکھ نے سوچا کہ بونے کے تین ڈگوں میں کتنی دھرتی جاتی ہے، مانگ مان لو۔ یہ سوچ اس نے مانگ مان لی، پروشنو جی ایک دم سے بونے سے دیو بن گئے۔ انھوں نے تین ڈگ ایسے بھرے کہ دھرتی اور آکاش دونوں تین ڈگوں میں سمیٹ لئے، اس دھیان نے منوجی کو چونکا دیا، ایک سندیہہ کے ساتھ انھوں نے مچھلی کو دیکھا پر ترنت دھیان کی اک اور لہر آئی، جی میں کہا کہ اس سمے تو دھرتی راکشسوں کے چنگل میں تھی، سو وشنو مہاراج نے انھیں اس پرکار جُل دیا اور دھرتی کو ان کے چنگل سے نکالا۔ آج کے دشٹ ایسے کون سے بڑے راکشس ہیں کہ وشنو مہاراج ایسا سوانگ بھریں گے، انھیں وہ چاہیں تو ابھی چیو نٹیوں کے سمان مسل ڈالیں۔
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
उपाएاپائے
solution
نسخہ ہائے وفا
فیض احمد فیض
کلیات
ادائے کفر
منور لکھنوی
انتخاب
سخن ہائے گفتنی
کلیم الدین احمد
تنقید
مرثیہ ہائے میر انیس
میر انیس
مرثیہ
افسانہ ہائے شرلک ہومز
قصہ / داستان
کافی ہائے حضرت بلہا شاہ قصوری
دیگر
نقش ہائے رنگ رنگ
اسلوب احمد انصاری
شاعری تنقید
مرثیہ ہائے میر مونس مرحوم
میر مونس لکھنوی
مرثیہ ہائے میر مونس
رشید احمد صدیقی
مضامین
مضطر مجاز
شاعری
مرثیہ ہائے میر مونس صاحب مرحوم
حکومت ہائے یورپ
فریڈرک آسٹن
عالمی تاریخ
بندروں نے یہ بات سن لی، بدھیستو کے پاس گئے اور پوچھا کہ ہے بندر راجہ، بتا اب ہم کیا کریں، بدھیستو جی نے کہا کہ چنتا مت کرو، ابھی اپائے کرتا ہوں، یہ کہہ کے وہ ایک ایسے پیڑ پہ چڑھے جس کی ٹہنیاں گنگا کے پاٹ پہ دور تک پھیلی ہوئی تھیں، پاٹ پہ پھیلی ہوئی آخری ٹہنی سے دوسرے کنارے چھلانگ لگا کے فاصلہ ناپا اور اس ناپ کا ایک بانس توڑ دریا پار کی ایک جھاڑی سے...
رات کے نو، ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ میں اور یٰسین چھجے پر کھڑے ملم کو دیکھ رہے تھے۔ مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں ملم نے ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کپڑے اتار دیے اور ننگا کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے کہیں سے اپنی بیوی کی سرخ صدری برآمد کی اور اس چارپائی پر جس کے نیچے شراب کی خالی بوتلیں اور ڈھکنے پڑے رہتے تھے، وہ اکیلی صدری پہن کر سو گیا۔اس کے بعد ایک اور خط آیا جس میں ملم کی بیوی نے اپنے نہ پہنچنے کی وجہ بتائی تھی۔ کہیں چترتی کے روز بھولے سے اس وہمی عورت کی نظر چاند پر پڑ گئی تھی اور اب وہ اپائے کروا رہی تھی۔خط میں اور باتوں کے علاوہ سنتان پور سے واپسی کی مقررہ تاریخ بھی لکھی تھی۔ اس دن حسب دستور ثریا اور دوسرے بچے پوچھنے کے لیے آئے اور ہم نے قصدا اس بات کا تذکرہ نہ کیا۔ اس دن مغل پور کے اسٹیشن پر سے کسی لیڈر کو گزرنا تھا، اس لیے میں اور یٰسین نے بھی اسٹیشن جانے کا ارادہ کر لیا۔
ایسے وقت میں دل کو ہمیشہ سوجھا ایک اپائےکاش کوئی بے خواب دریچہ چپکے سے کھل جائے
’’اس کا کوئی اپائے نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ مایوسانہ تھا۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا۔ ’’کیا روگی کا کمرہ بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’’پھر؟‘‘ ’’اس کا اپائے کیا ہے؟‘‘
چندرا: تو اس کا کوئی اپائے کر۔۔۔۔۔۔ ایسی باتیں کب تک چھپی رہیں گی۔۔۔۔۔۔ یہ تو تجھے بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ صرف تیرے لیئے آتا ہے۔درگی: لے میں نے قبول کیا۔ پر اب تو کوئی اپائے بتا۔۔۔۔۔۔ کس طرح اس کا آنا بند ہوسکتا ہے۔ تجھے تو ایسی باتیں خوب سوجھا کرتی ہیں۔
بہت عورتیں اور لڑکیاں جن کا ٹھٹھا اور ہنسی مذاق ہوا کو چیرے ڈالتا تھا، آخر کس تقریب پر بلائی گئی تھیں؟ مجھ سے نہ رہا گیا۔ بائیں کھڑکی کا پردہ کنارے سے ذرا سا سرکا کر میں نے آنگن کی طرف نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ کرشنا وینی سامنے والے کمرے میں پیلی دھوتی پہنے بیٹھی ہے اور دروازے کے قریب آرتی اتاری جا رہی ہے۔ تھال میں کنکم نظر آ رہا تھا۔ لیکن اس م...
’’یہ سب دھرم کی کمی کے کارن ہورہا ہے، دیپ چند۔‘‘ ’’دھرم بنا نروان کہاں؟‘‘ دیپ چند نے جیسے کسی گیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ اگرچہ وہ من ہی من میں جھینپ سا گیا۔ ابھی اگلے ہی روز شہر میں نہ جانے کون کہہ رہا تھا کہ آج نروان یا مکتی کی تلاش کی بجائے انسان آزادی کے لیے اپنی جان قربان کررہا ہے۔ اس کے دماغ کو جھٹکا سا لگا۔ اس کے دل میں تو یہ خیال شہد کی جنگلی مکھّی کی طرح بھنبھنانے لگا کہ سچ مچ دھرم کے بغیر آزادی مل سکتی ہے۔ لیکن جھٹ اُسے یاد آیا کہ اب تو جنگ بھی ختم ہوچکی ہے۔ آزادی کو تو اب آہی جانا چاہیے۔ بہت انتظار ہولیا۔ اس نے دور سڑک کی طرف نگاہ ڈالی جیسے یکایک کوئی لاری رُک جائے گی اور لاری سے اُتر کر آزادی کی دیوی سب سے پہلے اسی بوسیدہ مکان کے رستے پر چل پڑے گی۔ اس وقت اسے ناگ پھنی کے پودوں کی قطار پر بے حد جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی۔ آزادی کی دیوی کے سواگت کے لیے تو کوئی نیا ہی اُپائے ہونا چاہیے۔
بھابوجی اکثر بدھ سنگھ کو اپنے آپ سے باتیں کرتے سنتیں اور سمجھاتیں۔ ’’اس طرح تو تیرا دماغ پھر جائےگا بدھ سنگھ، تو اپنے آپ سے باتیں نہ کیا کر۔‘‘ لیکن بدھ سنگھ کہتا۔ ’’میرے گورو مہاراج کا کہنا ہے، بھابوجی کہا اچھا اپنا ایسے ہی ہے جیسے کھیرے کا کھانا۔ جیسے کھیرے کو ایک سرے سے تھوڑا سا کاٹ کر اور اسی ٹکڑے کو باقی کھیرے پر اسی جگہ جہاں سے وہ کاٹا گیا ہے ...
ردائے صبر میں لپٹے ہوئے یہ سنت فقیرسمسیاؤں کا اتم اپائے رکھتے ہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books