Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیٹی کا دھن

پریم چند

بیٹی کا دھن

پریم چند

MORE BYپریم چند

    بیتوا ندی دو اونچے کراروں کے بیچ میں اس طرح منہ چھپائے ہوئے تھی جیسے بعض دلوں میں ارادۂ کمزور اور تن پروری کے بیچ میں ہمت کی مدھم لہریں چھپی رہتی ہیں۔ ایک کرارپر ایک چھوٹا سا گاؤں آبادہے جس کے شاندار کھنڈروں نے اسے ایک خاص شہرت دے رکھی ہے۔ قومی کارناموں پر مٹنے والے لوگ کبھی کبھی یہاں در ودیوارِ شکستہ کے سامنے ایک پر خواب مایوسی کی حالت میں بیٹھے نظر آجاتے ہیں اور گاؤں کا بوڑھا کیوٹ چودھری جب محققانہ دردوسوز کے ساتھ رانی کے محل اورراجہ کے دربار اور کنور کی بیٹھک کے مٹے ہوئے نشانات دکھاتا ہے تو اس کی آنکھیں آبگوں ہوجاتی ہیں۔ جس کا سننے والوں پر اِن تاریخی انکشافات سے کچھ زیادہ ہی اثر ہوتاہے۔ کیا زمانہ تھا کہ کیوٹوں کو مچھلیوں کے صلے میں اشرفیاں ملتی تھیں۔ کہار لوگ محل میں جھاڑو دیتے ہوئے اشرفیاں بٹور لیجاتے تھے۔ بیتوا ندی روز بڑھ کر مہاراجہ صاحب کی قدم بوسی کے لئے آتی تھی۔ یہ اقبال تھا! مہاراجہ صاحب دومست ہاتھیوں کو ایک ایک ہاتھ سے ہٹا دیتے تھے۔ یہ سب واقعات مورخانہ انداز سے بیان کئے جاتے تھے اور انکی نسبت اپنی رائے قائم کرنے کی ہر شخص کو اپنی خوش اعتقادی کی نسبت سے کامل آزادی تھی۔ ہاں اگر زورِ بیان اور متانت، اور لب و لہجہ کسی تذکرے کو واقعیت کا رنگ دے سکتے ہیں تو بوڑھےچودھری کو ان کے صرف کرنے میں مطلق دریغ نہ ہوتا تھا۔

    سُکھّو چودھری صاحبِ خاندان تھے۔ مگر جتنا بڑا منہ اتنے بڑے نوالے نہ تھے۔ تین لڑکے تھے، تین بہَوئیں۔ کئی پوتے پوتیاں۔لڑکی صرف ایک تھی، گنگا جلی، جس کا ابھی تک گونہ نہیں ہوا تھا۔ یہ چودھری کی آخری اولاد تھی۔ بیوی کے مرجانے پر اس نے اسے بکریوں کا دودھ پلا پلا کے پالا تھا۔ خاندان تو اتنا بڑا اورکھیتی صرف ایک ہل کی۔ فراغت اور تنگی میں صرف ایک قدم کا فاصلہ تھا۔ مگر اس کی محققانہ اورمورخانہ قابلیت نے اسے وہ امتیاز دے رکھا تھا جس پر گاؤں کے معزز ساہوکار جھکڑ شاہ کو بھی رشک ہوتا تھا۔جب سکھّو گاؤں کے مجمع میں ضلع کے نو وارد افسروں سے تاریخی یادگاروں کا ذکر کرنے لگتا تھا تو جھکڑ تڑپ تڑپ کے رہ جاتےتھے اور غالباً یہی وجہ تھی کہ انھیں بھی ایسے موقعہ کی تلاش رہتی تھی جب وہ سُکھّو کو نیچا دکھا سکیں۔

    اس موضع کے زمیندار ایک ٹھاکر جتن سنگھ تھے۔ جن کی بیگار کے مارے گاؤں کے مزدور اورکسان جان سے تنگ تھے۔ امسال جب ضلع کے مجسٹریٹ کا دورہ ہوا اور وہ ان آثارِ قدیمہ کی سیر کے لئے تشریف لائے تو سکھّو چودھری نے دبی زبان سے اپنے گاؤں والوں کی تکلیفیں بیان کیں۔ حکام سے ہمکلام ہونے میں اسے مطلق تامل نہ ہوتا تھا۔اگرچہ وہ جانتا تھا کہ جتن سنگھ سے رار کرنا اچھا نہیں، مگر جب گاؤں والے کہتے کہ چودھری! تمہاری ایسے ایسے حاکموں سے متائی ہے اور ہم لوگوں کی رات دن روتے کٹتی ہے آخر یہ تمھاری دوستی کس دن کام آئے گی تو سکّھو کا مزاج آسمان پر جا پہونچتا۔

    مجسٹریٹ نے جتن سنگھ سے اس معاملہ میں تحریری جواب طلب کیا۔ادھر جھکڑ شاہ نے چودھری کی ان مغویانہ اور سرکشانہ زبان درازیوں کی رپورٹ جتن سنگھ کو دی۔ ٹھاکر جل کر آگ ہوگیا۔ اپنے کارندہ سے بقایا کی فہرست طلب کی۔ سوءِ اتفاق سے چودھری کے ذمہ امسال کی لگان باقی تھی۔ کچھ تو پیداوارکم ہوئی اور پھر گنگا جلی کا بیاہ کرنا پڑا، چھوٹی بہونتھ کے لئے رٹ لگائے ہوئے تھی۔ وہ بنوانا پڑی، ان مصارف نے ہاتھ بالکل خالی کردیا۔ لگان کے بارے میں کچھ زیادہ اندیشہ نہیں تھا۔ جس زبان میں حکام کو خوش کرنے کی طاقت ہے کیا اس کی شیریں بیانیان ٹھاکر پر کچھ اثر نہ کریں گی؟ بوڑھے چودھری تو اس اعتماد میں بیٹھے ہوئے تھے ادھر ان پر بقایا لگان کی نانش ہوگئی۔ سمن آپہونچا۔ دوسرے ہی دن پیشی کی تاریخ پڑگئی زبان کو اپنا جادو چلانے کا موقعہ نہ ملا۔

    جن لوگوں کے بڑھاوے سے سکھّو نے ٹھاکرسے چھیڑ چھاڑ کی تھی ان میں سے اب کسی کی صورت نہیں دکھائی دیتی تھی۔ ٹھاکر کے شحنے اورپیادے گاؤں میں پھیرے لگا رہے تھے۔ ان کا خوف غالب تھا۔ کچہری یہاں سے تیس میل کے فاصلہ پر تھی۔ کنوار کے دن، راستہ میں جا بجا نالے اورندیّاں حائل، کچا راستہ۔ بیل گاڑی کا گزرنہیں۔ پیروں میں سکت نہیں۔ آخر عدمِ پیروی میں یکطرفہ فیصلہ ہوگیا۔ بودے دلوں کی وکالت کرنا دلدل میں پیر رکھنے سے کم نہیں۔

    قرقی کا نوٹس پہونچا تو چودھری کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اپنی کمزوری کا علم اوسان کا دشمن ہے۔ شیریں بیان سکھو جس کی روشنی طبع اسکے سر پر یہ آفتیں لائی تھی اس وقت بچۂ بے بان بنا ہوا تھا۔ وہ چپ چاپ اپنی کھاٹ پر بیٹھا ہوا ندی کی طرف تاکتا اور دل میں سوچتا کیا میرے جیتے جی گھر مٹی میں مل جاے گا! یہ میرے بیلوں کی خوبصورت گوئیں، کیا انکی گردن میں دوسروں کا جواپڑےگا۔ یہ سوچتے سوچتے اس کی آنکھیں بھرآتیں اور وہ بیلوں سے لپٹ کر رونے لگتا۔ مگر بیلوں کی آنکھوں سے کیوں آنسو جاری تھے۔ وہ ناندمیں کیوں منہ نہیں ڈالتے تھے؟ کیا جذبۂ درد میں وہ بھی اپنے آقا کے شریک تھے۔

    پھر وہ اپنے جھوپڑے کو مایوس نگاہوں سے دیکھاک۔ کیا ہم کو اس گھر سے نکلنا پڑے گا۔ یہ بزرگوں کی نشانی میرے جیتے جی مٹ جائے گی!

    بعض طبیعتیں آزمایش میں مضبوط رہتی ہیں بعض اس کا ایک جھونکا بھی نہیں سہہ سکتیں۔ چودھری کی طبعی ذہانت نے اب موزونی طبع کی صورت اختیار کی جو تک بندی سے بہت مشابہ تھی۔ اپنی کھاٹ پر پڑے پڑے وہ گھنٹوں دیوتاؤں کو یاد کیا کرتا تھا اور مہابیر اور مہادیو کے گن گاتا۔۔۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی تینوں بہوؤں کے پاس زیور تھے۔ مگر عورت کا زیور اوکھ کا رَس ہے۔ جو پیلنے ہی سے نکلتا ہے۔ چودھری ذات کا ہیٹاہو، مگر طبیعت کا شریف تھا۔ نامورانِ سلف کا ذکر خیر کرتے کر تے اس کی طبیعت بھی غیور ہوگئی تھی۔ وہ اپنی طرف سے کبھی بہوؤں سے اس قسم کا تقاضا نہیں کرسکتاتھا۔ شائد یہ صورت اس کے خیال ہی میں نہ آئی تھی۔ہاں تینوں بیٹے اگر معاملہ فہمی سے کام لیتے تو بوڑھے چودھری کی دیوتاؤں کی مدد کی ضرورت نہ ہوتی۔ مگر بڑے صاحبزادے کو گھاٹ سے فرصت نہ تھی اور باقی دولڑکے اس عقدہ کو مردانہ اور دلیرانہ طریق پر حل کرنے کی فکر میں مدہوش تھے۔ کاش جتن سنگھ اس وقت انہیں کہیں اکیلے مل جاتے!

    منجھلے جھینگر نے کہا، ’’اونھ اس گاؤں میں کیا رکھا ہے۔ جہاں کمائیں گے وہیں کھائیں گے مگر جتن سنگھ کی مونچھیں ایک ایک کرکے چن لوں گا۔‘‘

    چھوٹے پھکّڑ اینڈ کر بولے، ’’مونچھیں تم چن لینا،ناک میں اڑا دوں گا۔ نکٹا بنا گھومے گا۔ اس پر دونوں نے قہقہہ لگایا اور مچھلی مارنے کے لئے ندی کی طرف چل دیئے۔‘‘

    اس گاؤں میں ایک بوڑھے بامہن بھی رہتے تھے۔ مندر میں پوجا کرتے تھے روزانہ اپنے ججمانوں کو درشن دینے کے لئے ندی پار جاتے مگرکھیوے کے پیسے نہ دیتے۔ تیسرے دن وہ زمیندار کے گوئیندوں کی نظر بچا سکھّو کے پاس آئے اور رازدارانہ انداز سے بولے، ’’چودھری کل ہی تک میعاد ہے اور تم ابھی تک پڑے سورہے ہو۔ کیوں نہیں گھر کی چیز بستو، ڈہور،ڈانگر کہیں اور ہانک دیتے نہ ہو سمدھیا نے بھیج دو۔ جوکچھ بچ رہے وہی سہی، گھر کی مٹی کھود کر کوئی تھوڑے ہی لےجائے گا۔‘‘

    چودھری اٹھ بیٹھا اور آسمان کی طرف دیکھ کر تقدس کی شان سے بولا، ’’جو کچھ اسکا حکم ہے وہ ہوگا۔ مجھ سے یہ جال نہ کیا جائے گا۔‘‘

    کئی دن کی متواتر شب و روز کی عقیدتمندانہ ورد اور دعا خوانی نے جن میں نمائش کا شائبہ نہ تھا، اسے مدافعت کی اِس عملی اور عام تجویز پر کارپیرا نہ ہونے دیا۔ پنڈت جی جو اس فن کے استاد تھے نادم ہوگئے۔

    مگر چودھری کے گھر کے دوسرے ممبر خدا کی مرضی پر اس حد تک شاکر نہ تھے۔ گھر کے برتن بھانڈے چپکے چپکےکھسکائے جاتے تھے۔ اناج کا ایک دانہ بھی گھر میں نہ رہنے پایا۔ رات کو کشتی لدی ہوئی جاتی اور خالی واپس آتی۔ تین دن تک گھر میں چولھا نہ جلا۔ بوڑھے چودھری کے منہ میں دانہ کا کیا ذکر پانی کی ایک بوند بھی نہ پڑی تھی۔ عورتیں بھاڑ سے چنے بھنا بھنا کر کھاتیں۔ لڑکے ندی سے مچھلیاں لاتے اور بھون بھون کھاتے۔ اگر اس فاقہ کشی میں کوئی بوڑھے کا شریک تھا تو وہ اس کی لڑکی گنگا جلی تھی۔ وہ غریب اپنے باپ کو چارپائی پر بے آب و دانہ پڑے کراہتے دیکھتی اور بلک بلک کر روتی۔ قدرت نے دیگر جذبات کی طرح عورتوں کو محبت بھی زیادہ دی ہے۔ لڑکوں کو والدین سے وہ محبت نہیں ہوتی جو لڑکیوں کو ہوتی ہے اور گنگا جلی کے آنسوؤں میں الفت کا خالص جذبہ تھا، مادی مآل اندیشوں سے پاک۔

    گنگا جلی اس فکر میں غوطے کھایا کرتی کہ کیسے دادا کی مددکروں۔ اگر ہم سب بھائی بہن ملکر جتن سنگھ کے پاس جائیں اور انکے پیروں پر سر رکھدیں توکیا وہ نہ مانیں گے۔ مگر دادا سےیہ کب دیکھا جائے گا۔ ارے وہ ایک دن بڑے صاحب کے پاس چلے جاتے تو سب کچھ بن جاتا۔ مگر ان کی تو جیسے بُدّھ ہی کیا ہوگئی۔ اسی ادھیڑ بُن میں اسے اندھیرے میں روشنی کی ایک جھلک نظر آئی۔

    پجاری جی سکھّو چودھری کے پاس سے چلے گئے تھے اور چودھری بڑی بلند آواز سے اپنے سوتے ہوئے مہابیر اور بھگوان اور ہنومان کو بلاتے تھے کہ گنگا جلی انکے پاس جاکر کھڑی ہوگئی چودھری نے دیکھا اور بولے، ’’کیا ہے بیٹی؟ رات کو کیوں باہر آئیں؟‘‘

    گنگا جلی نے کہا، ’’باہر رہنا تو بھاگ ہی میں لکھا ہے گھر میں کیسے رہوں۔‘‘

    سکھو نے زور سے ہانک لگائی، ’’کہاں گئے تم کرشن مراری، میر دکھ ہرو۔‘‘

    گنگا جلی بیٹھ گئی اور آہستہ سے بولی، ’’بھجن گاتے تو تین دن ہوگئے،گھر بار بچانے کی بھی کوئی اپائے سوچی کہ یہ سب مٹی میں ملادو گے۔کیا ہم لوگوں کو پیڑتلے رکھو گے۔‘‘

    چودھری نے پرغم انداز سے کہا، ’’بیٹی! مجھے تو کوئی اپائے نہیں سوجھتی۔ بھگوان جو چاہیں گے ہوگا۔ بیگ چلو گردھر گوپالا کا ہے بلمپ کرو۔‘‘

    گنگا جلی بولی، ’’میں نے ایک اپائے سوچی ہے۔ کہو تو بتاؤں۔‘‘

    چودھری اٹھکر بیٹھ گیا۔ قالبِ بےجان میں جان سی پڑگئی۔ پوچھا، ’’کونسی اپائے ہے بیٹی؟‘‘

    گنگا جلی نے کہا، ’’میرے گھنٹے جھکڑ ساہو کے یہاں گرورکھ دو۔ میں نے جوڑلیا ہے دینے بھر کے روپئے ہوجائیں گے۔‘‘

    چودھری نے آہ ِسرد بھری اور بولے، ’’بیٹی تم کو مجھ سے یہ کہتے لاج نہیں آتی۔ بیدشاستر میں مجھے تمھارے گاؤں کے کنوئیں کا پانی پینا بھی نہیں لکھا ہے۔ تمھاری ڈیوڑھی میں پیر رکھنا بھی منع ہے کیا مجھے نرک میں ڈھکیلنا چاہتی ہو؟‘‘

    گنگا جلی اس جواب کے لئے پہلے ہی سے تیار تھی بولی، ’’میں تمھیں اپنے گہنے دیئے تھوڑے ہی دیتی ہوں۔ اس وقت لیکر کام چلاؤ۔ چیت میں چھڑا دینا۔‘‘

    چودھری نے زور دیکر کہا، ’’یہ مجھ سے نہ ہوگا۔‘‘

    گنگا جلی نے بھی پرجوش انداز سے جواب دیا، ’’تم سے نہ ہوگا تو میں آپ جاؤں گی مجھ سے گھر کی یہ دسادیکھی نہیں جاتی۔‘‘

    چودھری جھنجلا کر بولے، ’’برادری میں کون منہ دکھاؤں گا۔‘‘

    گنگا جلی نے چڑھ کر کہا، ’’برادری میں کون ڈھنڈورا پیٹنے جائے گا۔‘‘

    چودھری نے فیصلہ کیا۔ جگ ہنسائی کے لئے میں اپنا دھرم نہ بگاڑوں گا۔

    گنگا جلی نے دھمکایا، ’’میری بات نہ مانو گے تو تمھارے اوپر میری ہتیا پڑے گی۔ میں آج ہی اس بیتوا ندی میں کود پڑوں گی۔ تم سے چاہے گھر میں آگ لگتے دیکھا جائے۔ مجھ سے نہ دیکھا جائے گا۔‘‘

    چودھری نے پھر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بیکسانہ انداز سے بولے، ’’بیٹی میرا دھرم نہ ستیا ناش کرو۔ اگر ایسا ہی ہے تو اپنی کسی بھاوج کے گہنے مانگ لاؤ۔‘‘

    گنگا جلی نے طنز کے ساتھ کہا، ’’بھاوجوں سے اپنا منہ کون نچوائے۔ ان کو فکر ہوتی تو کیا منہ میں دہی جما تھا۔ کہتیں نہ؟‘‘

    چودھری لاجواب ہوگئے۔ گنگا جلی کی دلیلوں کےمقابلہ میں اس کے انداز کی سرگرمی نے زیادہ اثر کیا اور یہ تدبیر اس وقت چودھری کے دماغی حالت کے موزوں تھی۔ جس کے عملی اوصاف زائل ہوچکے تھے۔ وہ اپنی منوانہ سکتا تھا، صرف دوسرے کی مان سکتا تھا آگے آگے نہیں، صرف پیچھے پیچھے چل سکتا تھا۔

    گنگا جلی گھر میں گئی اور گہنوں کی پٹاری لے آئی اور انھیں نکال کر چودھری کےانگوچھے میں باندھ دیا۔ چودھری نے کہا۔ ہائے رام! اس مٹی کی کیا گت کرو گے یہ کہہ کر اٹھے۔ مگر پوٹلی ہاتھ میں لیتے ہی باوجود بہت ضبط کرنے کے ان کے آنسو امڈ آئے اور دبی ہوئی سسکیاں ایک بار زور سے پھوٹ نکلیں۔

    رات کا وقت،بیتوا ندی کے کرارے پر سکھو چودھری گہنوں کی پوٹلی بغل میں دبائے اس طرح سب کی نظریں بچاتے چلے جاتے تھے۔ گویا یہ پاپ کی گٹھری ہے۔ جب وہ جھکّر ساہ کے مکان کے قریب پہونچے تو ذرا رک گئے۔ آنکھیں خوب اچھی طرح صاف کیں اور بشاشت کا روپ بھرا۔ کسی کو اپنے حاسد اور بدخواہ کے سامنے بیکسی کا اظہار کرنے کی نوبت نہ آئے۔ زندگی میں اس سے زیادہ المناک اور کوئی حادثہ نہیں ہے۔ لیکن جب ایسی ضرورت آ ہی پڑے تو پھر جذبات پر ایک خوب موٹا پردہ ڈالنا چاہیۓ۔

    جھکڑ شاہ دھاگے کی کمانیوں والی ایک موٹی عینک لگائے، کچھ بھَے کھاتے سامنے پھیلائے ناریل پیتے تھے اور چراغ کی دھندھلی روشنی میں ان حروف کو پڑھنے کی کوشش بے سود کرتے تھے جن میں سیاہی کا بہت کفایت شعارانہ استعمال کیا گیا تھا۔ بار بار عینک کو صاف کرتے اور آنکھیں ملتے تھے مگر چراغ کی بتی کو اکسانا یا دہرانا مناسب نہ خیال کرتے تھے۔ اتنے میں سکھّو چودھری نے کہا، ’’جے رام جی کی!‘‘

    جھکّر نے عینکوں کی آڑ سے دیکھا۔ آواز پہچانی۔ بولے، ’’جے رام جی کی چودھری! کہو اس معاملہ میں کیا ہوا۔ یہ لین دین بڑا پاجی کام ہے۔ دن بھر سر اٹھانے کی چھٹی نہیں ملتی۔‘‘

    چودھری نے پوٹلی کو رانوں تلے چھپا کر لاپروائی کے انداز سے کہا، ’’ابھی تو کچھ نہیں ہوا۔ کل اِجرائے ڈگری ہونے والی ہے۔ ٹھاکر صاحب نے جانے کب کی بیر نکالی ہے۔ اگر ہم کو دوتین دن کی بھی مہلت ملتی تو ڈگری نہ جاری ہونے پاتی۔

    جنٹ صاحب اور بڑے صاحب دونوں ہم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ابھی اسی سال میں نے ان سے ندی کنارے گھنٹوں باتیں کیں مگر ایک تو برسات کے دن، دوسرے ایک دن کی بھی مہلت نہیں۔ کیا کرتا۔ مجھے اس وقت روپیوں کی فکر ہے۔‘‘

    جھکّڑ نے تعجب انگیز لہجہ میں کہا، ’’تم کو روپیوں کی فکر! گھر میں بھرا ہوا ہے وہ کس دن کام آئے گا۔‘‘

    جھکڑ شاہ نے یہ بات طنزاً نہیں کہی تھی۔ انہیں اور سارے گاؤں کو اس بات کا یقین کامل تھا۔ ہمارے پڑوسیوں کو دنیا میں کسی اور بات کا اتنی جلد یقین نہیں ہوتا جتنا ہماری خوشحالی کا۔

    چودھری کا بہروپ کھلنے لگا۔ بولے، ’’شاہ جی روپئےہوتے توکس بات کی چنتا تھی۔ تم سے پردہ کونسا ہے۔ تین دن سے گھر میں چولھا نہیں جلا۔ سارے گھر میں رونا پیٹنا پڑا ہے اب تو تمھارے بسائے بسوں گا۔ ٹھاکر نے تو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘‘

    جھکّڑ شاہ، جتن سنگھ کو خوش ضرور رکھنا چاہتے تھے مگر چودھری کی حکام رسی کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ اگر اصل معہ سود مرکب آسانی سے وصول ہوجائے تو انہیں چودھری کو زیرِ بار احسان کرنے میں کوئی تامل نہیں تھا۔ کیا عجب ہے اسی شخص کی چَرب زبانیوں کی بدولت انکم ٹیکس سے نجات ہوجائے جو باوجود اخفاء آمدنی کے متعدد کوششوں کے، انکی توند کی طرح روز بروزمائل بہ فراوانی تھا۔ بولے، ’’کیا کہیں چودھری! خرچ سے ہم بھی آجکل تنگ ہیں لہنے وصول نہیں ہوئے۔ ٹیکس کا روپیہ دینا پڑا۔ تمھیں کتنا روپیہ درکار ہوگا؟‘‘

    چودھری نے کہا، ’’ڈیڑھ سو روپیہ کی ڈگری ہے۔ خرچ برچ ملا کر دو سو کے لَگ بھَگ سمجھو۔‘‘

    جھکّڑ اب اپنے والوں کھیلنے لگے۔ پوچھا، ’’تمہارے لڑکوں نے کچھ بھی مدد نہ کی؟ وہ سب بھی تو کچھ نہ کچھ کماتے ہی ہیں۔‘‘

    ساہوکا یہ نشانہ ٹھیک پڑا۔ لڑکوں کی لاپروای سے چودھری کے دل میں جو بخارات جمع تھے وہ ابل پڑے۔ بولے، ’’ بھائی اگر لڑکے کسی لائق ہوتے تو یہ دن ہی کیوں آتا۔ انہیں تو اپنے چین آرام سے مطلب ہے گر ہستی کا بوجھ میرے سر ہے۔ میں اسے جیسے چاہوں سنبھالوں۔ ان سے کچھ سروکار نہیں۔ مرتے دم بھی گلا نہیں چھوٹتا۔ مروں گا تو سب کھال میں بھس بھروا کر رکھ چھوڑیں گے۔ یہ گرہستی نہیں ہے جنجال ہے۔‘‘

    جھکّڑ نے دوسرا تیر مارا وہ اور بھی کاری پڑا، ’’کیا بہوؤں سے بھی کچھ نہ بن پڑا؟‘‘

    چودھری نے جواب دیا، ’’بہو بیٹے سب اپنی اپنی فکر میں مست ہیں، میں تین دن دوارے پر بے دانہ پانی پڑا رہا۔ کسی نے بات نہ پوچھی۔ کہا ں کی صلاح، کہاں کی بات چیت۔ بہوؤں کے پاس روپئے نہ ہوں۔ مگر گہنے تو ہیں اور میرے ہی بنوائے ہوئے۔ اس آڑے پر دودو تھان اتار دیتیں تو کیا میں چھڑا نہ دیتا۔ دن سدایوں ہی تھوڑے ہی رہے گا۔‘‘

    جھکّڑ سمجھ گئے کہ یہ محض زبان کا سودا ہے اور زبان کے سودے وہ بھول کر بھی نہ کرنے تھے۔ بولے، ’’تمہارے گھر کے آدمی بھی انوٹھے ہیں۔ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ بڈھا روپئے کہاں سے لائے گا۔ زمانہ اور طرح کا ہے۔ یا تو کچھ جائداد لکھو، یا پھر گہنے پاتے ہوں۔ اس کے بغیر روپیہ کہاں۔ اس میں بھی جائداد میں سیکڑوں بکھیڑے ہیں۔ سبیھتا اِسی گرورکھنے میں ہوتا ہے ہاں تو جب گھر والوں کی یہی مت ہے تو تم کیوں حیران ہوتے ہو۔ یہی نہ ہوگا بدنامی ہوگی۔ لوگ ہنسیں گے مگر اس لاج کو کہاں تک بناہوگے۔‘‘

    چودھری نے بیکسانہ انداز سے کہا، ’’جھکّڑ یہی لاج ہی تو ہے جو مارے ڈالتی ہے تم سے کیا چھپا ہے۔ ہمارے دادا بابا مہراج کی سواری کے ساتھ چلتے تھے اور اب آج یہ دن آگیا ہے کہ گھر کی دیواریں تک بکی جاتی ہیں۔ کہیں منہ دکھانے کی جگہ نہ رہے گی۔ یہ دیکھو گہنوں کی پوٹلی ہے۔ یہ لاج نہ ہوتی تو میں اسے لیکر کبھی یہاں نہ آتا۔ مگر یہ ادھر م اسی لاج نباہنے کے لئے سرپر لیا ہے۔‘‘

    جھکڑ نے تعجب سے پوچھا، ’’یہ گہنے کس کے ہیں؟‘‘

    چودھری نے سرجھکا کر بڑی مشکل سے کہا، ’’میری بیٹی گنگا جلی کے۔‘‘

    جھکّڑ نے دل سوزی کے ساتھ کہا، ’’ارے رام رام!‘‘

    چودھری بولے، ’’ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘

    جھکّڑ نے کہا، ’’شاستروں میں بیٹی کے گاؤں کا روکھ تک دیکھنا منع ہے۔‘‘

    چودھری نے اپنی معذوری جتائی، ’’نہ جانے نارائن کب موت دیں گے۔ تین لڑکیاں بیاہیں۔ کبھی انکے دروازے کی صورت نہیں دیکھی۔ پرماتما نے اب تک تو یہ ٹیک نباہی۔ مگر اب نہ جانے مٹی کی کیا دُر دشا ہونے والی ہے۔‘‘

    جھکڑ شاہ لیکھا جو جو اور بخشش سو سو کے زرّیں اصول کے پابند تھے۔ سود کی ایک کوڑی بھی نہیں چھوڑتے تھے اگر مہینہ کا ایک دن بھی لگ جائے تو پورے مہینہ کا سود وصول کرلیتے مگر نوراتر کے دنوں میں روزدرگا پاٹ کرواتے تھے۔ پِتر پکش کے دنوں میں روزانہ برہمنوں کو سیدھے باٹتے۔ مذہبی عقیدت اور مذہبی فیاضی ہمارے ساہو کاروں کا زیور ہے۔ جھکّڑ کے دروازہ پر سال میں ایک بار بھاگوت ضرور ہوتی۔ کوئی غریب برہمن لڑکی کے بیاہ کے لئے ان کے سامنے دستِ سوال پھیلائے اسے مایوسی نہ ہوتی تھی۔ برہمن کتنا ہی موٹا تازہ کیوں نہ ہو اسے انکے دروازے پر مہذب نفرین اور پھٹکار نہیں سننا پڑتی تھی۔ ان کے مذہب میں بیٹی کے گاؤں کے کنوئیں کا پانی پینے کے مقابلہ میں پیاس سے مرجانا بدرجہا بہتر تھا اور وہ خود اس اصول کے سختی سے پابند تھے اور اس پابندی کی قدر کرتے تھے۔

    انھیں اسوقت چودھری پر رحم آیا۔ یہ شخص جس نے کبھی اوچھے خیالوں کو دل میں جگہ نہیں دی اس وقت زمانہ کی کشمکش سے مجبور ہوکر ادھرم پر اتر آیا ہے اس کے دھرم کی رکشا کرنی چاہیۓ۔ یہ خیال آتے ہی جھکّڑ شاہ گدّی سے اٹھ بیٹھے اور تسکین بخش انداز سے بولے، ’’وہی پرماتما جس نے اب تک یہ ٹیک نبھائی ہے اب بھی تمہارا پرن نبھائے گا۔ لڑکی کے گہنے لڑکی کو دیدو۔ لڑکی جیسی تمھاری ہے ویسی میری۔ میں ڈگری کے کل روپئے تمھیں دیدوں گا۔ جب ہاتھ میں روپئے آجائیں دے دینا۔ مجھے لوگ جتنا برا کہتے میں اتنا برا نہیں ہوں۔ ہاں اپنا پیسہ پانی میں نہیں بہاتا۔‘‘

    چودھری پر اس فیاضانہ ہمدردی کا نہایت گہرا اثر ہوا۔ وہ بآواز بلند رونے لگے۔ انھیں اپنی بھگتی کی دھن میں اس وقت کرشن بھگوان کی موہنی مورت سامنےکھڑی نظر آئی۔ وہ جھکّڑ جو سارے گاؤں میں بدنام تھا جس کی اس نے بارہا حاکموں سے شکایت کی تھی اس وقت چودھری کو ایک دیوتا معلوم ہوتاتھا۔ بولے، ’’جھکّڑ! تم نے اس وقت میری بات، میری لاج، میرا دھرم سب کچھ رکھ لیا تم نے میری ڈوبتی ہوئی ناؤ پار لگادی۔ کرشن مراری تم کو اس جَس کا پھل دیں گے اور میں تو جب تک جیوں گا تمھارے گن گاتا رہوں گا۔‘‘

    مأخذ:

    پریم چند: مزید افسانے (Pg. 39)

      • ناشر: خدا بخش لائبریری،پٹنہ
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے